ہم مادّے کے غلام
چمک دمک بڑھتی رہے،
سکون، آسائشیں، سہولتیں ہوں،
مگر حقیقت سے بہت دُور۔
قرآن
کو نہ سمجھے،
دل پژمُردہ ہے
کہ ہر تعلیم یافتہ،
اور انپڑھ جاہل ۔
خود سے
ناواقف،
زندگی کی تخلیق سے دُور۔
سفید
لباس میں ملبوس،
علمی گھمنڈ کے ساتھ،
سمجھے کہ ہم کامیاب ہیں۔
حقیقت میں
ہم ناکام ہیں۔
نور قریشی
تآج کا انسان ترقی کی بلندیاں چھو رہا ہے۔
سائنس، ٹیکنالوجی، فیشن، آسائشات، اور مادّی
سہولتوں کے پیچھے بھاگتا ہوا ایک ایسا معاشرہ وجود میں آ چکا ہے جو بظاہر تو
کامیاب نظر آتا ہے، مگر باطن میں ایک گہری کھوکھلاہٹ اور روحانی پیاس کا شکار ہے۔
ہم نہ
سمجھے، ہم نے مادّی چیزوں کو سب کچھ سمجھ لیا، چمک دمک، آرام و آسائش اور سہولتوں
کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہم حقیقت سے بہت دور نکل گئے۔ ہم نے سکون کو مال و دولت
میں تلاش کیا اور اصل سکون کے راستے یعنی اللہ اور قرآن کو پسِ پشت ڈال دیا۔ ہم نے
قرآن کو محض ایک کتابِ تلاوت سمجھا، اس کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ہم
نے تعلیم حاصل کی، ڈگریاں لیں، لیکن علم کی اصل روح، حکمت اور شعور سے محروم رہے۔
ہم تعلیم یافتہ ہو کر بھی بے عمل، اور انپڑھ ہو کر بھی غافل رہے۔ ہم نے اپنی اصل
پہچان، اپنی روح، اپنے مقصدِ زندگی کو بھلا دیا۔ ہم خود سے ناآشنا ہو چکے ہیں، نہ
یہ جانتے ہیں کہ ہم کون ہیں، نہ یہ کہ ہمیں کس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ ہم
سفید لباس پہن کر، خوشبو لگا کر، اور ظاہری شان و شوکت اختیار کر کے خود کو کامیاب
سمجھنے لگے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم ناکام ہو چکے ہیں۔ ہم نے دنیا کو سب
کچھ سمجھا اور آخرت کو فراموش کر دیا۔ ہم نے جسم کی پرورش کی، مگر روح کو بھوکا
مار دیا۔ ہم نے دوسروں کو دکھانے کے لیے جیا، خود کو بہتر بنانے کے لیے نہیں۔ اصل
کامیابی نہ دولت میں ہے، نہ ظاہری عزت میں، بلکہ سچی کامیابی رب کی پہچان میں، قرآن
کی سمجھ میں، اور زندگی کو مقصد کے ساتھ گزارنے میں ہے۔ ہمیں جاگنے کی ضرورت ہے،
ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، اور ہمیں کہاں جانا ہے۔ جب تک ہم
واپس اپنے رب، اپنے دین، اور اپنے اصل مقصد کی طرف نہیں لوٹیں گے، ہم نہ دنیا میں
کامیاب ہو سکتے ہیں، نہ آخرت میں۔

No comments:
Post a Comment