جمے ہوئے ذہنوں سے روشن مستقبل تک (والدین کے لیے شعور بیداری کا پیغام)
تحریر: نور
قریشی
دی فاؤنڈرز اسکول ڈی آئی خان میں
ہمارا یقین ہے کہ اصل تعلیم وہ ہے جو ذہنوں کو کھولتی ہے، نہ کہ صرف کاپیوں کو
بھرنے تک محدود ہو۔ ہمارے بچے صرف رٹنے اور حکم ماننے کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔ وہ
سوچنے، سوال کرنے، تلاش کرنے، اپنے خیالات کا اظہار کرنے اور زندگی میں کچھ بڑا
کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے
ملک کے زیادہ تر اسکول آج بھی پرانی اور جامد تعلیم پر چل رہے ہیں۔ وہاں صرف
رٹائی، صاف کاپی، استاد کا اندھا احترام، اور نمبر لینا ہی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔
باہر سے یہ نظام کامیاب دکھائی دیتا
ہے، لیکن اندر سے یہ بچوں کی سوچنے کی صلاحیت ختم کر دیتا ہے، سوال کرنے کی ہمت
چھین لیتا ہے، اور خوف کے سائے میں سیکھنے کا ماحول پیدا کرتا ہے۔
بچوں سے کہا
جاتا ہے: چپ رہو، بس لکھو، سوال مت کرو۔
غلطی کو سیکھنے
کا موقع سمجھنے کے بجائے سزا دی جاتی ہے۔
نتیجہ؟ بچے
اچھے نمبر تو لے لیتے ہیں، مگر زندگی کے اصل امتحانوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
مگر ہمارے بچے اس سے بہتر کے حق دار
ہیں۔
انہیں ایسی
تعلیم چاہیے جو صرف یاد نہ کرائے، بلکہ سمجھائے، سکھائے، اور کچھ نیا بنانے کی ہمت
دے۔
ایسی تعلیم
جہاں انہیں صرف "طالبعلم" نہیں، بلکہ ایک سوچنے والا، کرنے والا، بولنے
والا اور مستقبل کا رہنما سمجھا جائے۔
دی فاؤنڈرز اسکول میں ہم تخلیقی،
عملی اور مقصد والی تعلیم پر یقین رکھتے ہیں۔
ہم بچوں میں
اعتماد، تجسس اور مل کر کام کرنے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں
کہ بچے سوال کریں، مل کر کام کریں، سیکھنے کو سرگرمیوں اور منصوبوں کے ذریعے زندگی
سے جوڑیں۔
ہمارے اساتذہ صرف لیکچر دینے والے
نہیں، بلکہ ہر بچے کی رہنمائی کرنے والے ساتھی ہیں۔
ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ والدین
ہمارے اہم ساتھی ہیں۔ آپ صرف تماشائی نہیں، بلکہ اپنے بچے کی کامیابی کے سفر کا
اصل حصہ ہیں۔
ہم کھلے رابطے،
بامعنی ترقی اور گھر–اسکول کے مضبوط رشتے پر یقین رکھتے ہیں۔
آئیے! ایک نظر ڈالتے ہیں کہ
"جمے ہوئے تعلیمی نظام" اور "تخلیقی تعلیمی نظام" میں کیا فرق
ہے — تاکہ آپ خود فیصلہ کر سکیں کہ آپ کے بچے کے روشن مستقبل کے لیے کون سا راستہ
بہتر ہے:
جمی ہوئی تعلیم
رٹائی کو سیکھنے کا اصل طریقہ سمجھا
جاتا ہے
کامیابی = صاف کاپی + خاموشی
نصاب کو بغیر سمجھے رَٹا جاتا ہے
نظم = ڈر اور خاموشی
جانچ صرف تحریری نمبر پر
استاد مرکز میں، بچہ صرف سننے والا
سرگرمیاں اور سوالات کی گنجائش نہیں
غلطی = سزا، اصلاح نہیں
کمزور بچوں کو اسکول میں سپورٹ نہیں،
ٹیوشن بھیج دیا جاتا ہے
مذہبی تعلیم = صرف حفظ، مطلب یا عمل
نہیں
بچہ = نمبر، شخصیت نظر انداز
والدین = صرف رسمی ملاقاتیں، اصل
شمولیت نہیں
اسکول = عمارت اور اشتہارات کی
نمائش، اندر سے خالی
اساتذہ = بغیر تربیت، بغیر تعاون
کمزور بچے = نظر انداز
منصوبہ بندی = صرف کتاب ختم کرنا
توجہ = صرف فیس، سیکھنے کا معیار
نہیں
تخلیقی
تعلیم
سیکھنا = سمجھنا، اپنانا، تخلیق کرنا
کامیابی = گہرا علم، اظہار، اصل ترقی
نصاب + زندگی = مربوط تعلیم
نظم = عزت، شرکت اور خوداعتمادی
جانچ = تحریری، زبانی، عملی سرگرمیاں
بچہ = سیکھنے کا مرکز، آواز اہم
سوالات = خوش آمدید
غلطی = سیکھنے کا موقع
کمزور بچوں = کلاس میں انفرادی مدد
مذہبی تعلیم = مطلب، اقدار، عمل
بچہ = منفرد، قابل، باصلاحیت
والدین = سچے تعلیمی ساتھی
اسکول = اندر سے مضبوط نظام، بچے کی
حقیقی ترقی
اساتذہ = تربیت، تعاون، بہتری کے
مواقع
منصوبہ بندی = مقصد پر مبنی، نتیجہ
خیز
توجہ = سیکھنے کی بہتری، کاروبار بعد
میں
محترم والدین!
جمے ہوئے نظام
تعلیم کو محفوظ سمجھا جاتا ہے، مگر یہ آپ کے بچے کو نہ سوچنا سکھاتا ہے، نہ بولنا،
نہ اخلاقی فیصلے لینا، نہ قیادت۔ یہ بس رَٹنے والی مشینیں بناتا ہے۔
آئیے! ہم اس برف کو مل کر پگھلائیں۔
ایسی تعلیم کا
انتخاب کریں جو آپ کے بچے کو زندگی دے، شعور دے، مقصد دے۔
ایسا اسکول
چنیں جہاں آپ کا بچہ صرف رول نمبر نہ ہو، بلکہ ایک پہچانا ہوا، سنا گیا، سراہا گیا
انسان ہو۔
جہاں سیکھنا
زندہ ہو۔
جہاں بچے کا
مستقبل اصل ترجیح ہو — نہ کہ صرف مارکس۔

No comments:
Post a Comment