Wednesday, July 2, 2025

حضرت امام حسینؓ — قربانی، صداقت اور امت کی اصلاح کا استعارہ

حضرت امام حسینؓ — قربانی، صداقت اور امت کی اصلاح کا استعارہ

نور قریشی
حضرت امام حسینؓ، نواسۂ رسول ﷺ، حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے لختِ جگر، تاریخِ اسلام کا وہ درخشندہ ستارہ ہیں جن کی قربانی نے دینِ اسلام کو نئی زندگی بخشی۔ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ عدل، صبر، حق گوئی اور استقامت کا مظہر ہے۔ کربلا میں آپ کی شہادت صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے — جو ہمیں سکھاتا ہے کہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانا، حق پر ڈٹے رہنا، اور اللہ کی رضا کے لیے جان قربان کر دینا ہی حقیقی ایمان ہے۔
حضرت امام حسینؓ کی ولادت 3 شعبان 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ نبی کریم ﷺ کو آپ سے بے پناہ محبت تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
"حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرے۔"
(ترمذی)
آپ نے بچپن نبی ﷺ کی گود میں گزارا اور خلفائے راشدین کے ادوار میں علم، تقویٰ، شجاعت، عبادت اور سخاوت کا نمونہ بنے۔
حضرت ابوبکرؓ کے دورِ خلافت (11 تا 13 ہجری) میں آپ کی عمر تقریباً سات سے نو سال تھی۔ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں (13 تا 23 ہجری) آپ نو سے انیس سال کے درمیان تھے۔ حضرت عثمانؓ کے دور خلافت (23 تا 35 ہجری) میں آپ کی عمر انیس سے اکتیس سال تک رہی۔ حضرت علیؓ کی خلافت (35 تا 40 ہجری) کے وقت آپ کی عمر اکتیس سے چھتیس سال کے درمیان تھی، اور آپ نے میدان جنگ میں بھرپور شرکت کی۔ حضرت حسنؓ نے چھ ماہ خلافت سنبھالی، تب امام حسینؓ چھتیس برس کے تھے۔ حضرت معاویہؓ کے دورِ حکومت (41 تا 60 ہجری) میں آپ کی عمر چھتیس سے پچپن سال کے درمیان رہی۔ جب یزید نے حکومت سنبھالی (60 ہجری)، تو امام حسینؓ کی عمر پچپن سال تھی، اور 61 ہجری، 10 محرم کو آپ نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔
آپ کا مقصد خلافت حاصل کرنا نہیں بلکہ امت کی اصلاح، حق کا قیام، اور یزید جیسے فاسق حکمران کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔ آپ نے فرمایا:
"میں نہ ظلم کے لیے نکلا ہوں، نہ فساد کے لیے، میں نکلا ہوں اپنی نانا ﷺ کی امت کی اصلاح کے لیے۔"
کوفہ روانگی سے قبل آپ نے کئی صحابہ اور اہلِ علم سے مشورہ کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت محمد بن حنفیہؓ، حضرت ام سلمہؓ سمیت کئی بزرگوں نے آپ کو روکنے کی کوشش کی۔ آپ نے ان کی رائے سنی، اور فرمایا:
"ہمارا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، وہی بہترین کارساز ہے۔"
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے آپ کی رائے کی تائید کی، مگر خود مکہ میں علیحدہ قیام کا فیصلہ کیا۔
امام حسینؓ 28 رمضان 60 ہجری کو مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے۔ آپ نے مکہ میں تقریباً چار ماہ قیام فرمایا۔ 8 ذو الحجہ کو، حج سے پہلے، اس خدشے کے پیشِ نظر کہ یزیدی کارندے آپ کو حرم میں شہید نہ کر دیں، آپ نے مکہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ راستے میں کئی افراد نے آپ کو روکا، جن میں عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن ابی موطی بھی شامل تھے، مگر آپ نے فرمایا:
"میں حق کے لیے نکلا ہوں، میں اپنی نیت، دعوت اور مشن کے لیے جانا چاہتا ہوں — چاہے راستہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔"
وادیِ عقیق میں ‘بشیر بن غالب’ کے ساتھ گفتگو میں فرمایا:
"تمہارے دل ہمارے ساتھ ہیں مگر تلواریں دشمن کی جانب؛ سچائی پر ہو مگر امتحان سخت ہے۔"
طَہْلَبِیہ کے مقام پر مسلم بن عقیلؓ کی شہادت کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا:
"جو جانا چاہے، چلا جائے۔"
سفر کے دوران آپ جگہ جگہ کھانا اور پانی بانٹتے رہے، مہمان نوازی اور اخلاق کا مظاہرہ کرتے رہے۔
محرم 61 ہجری کو آپ کربلا پہنچے۔ دشمن نے پانی بند کر دیا، محاصرہ کیا، مگر آپ نے صبر و عزیمت کا مظاہرہ کیا۔ حضرت عباسؓ نے جان پر کھیل کر پانی لانے کی کوشش کی۔ امام حسینؓ نے ہر قدم پر اللہ کی رضا کو ترجیح دی، اور میدانِ کربلا میں اپنے نانا کے دین کو بچانے کی خاطر اپنے عزیز ترین ساتھیوں کی قربانی دی۔
شہدائے کربلا میں شامل تھے
اہلِ بیت (اولادِ حضرت ابوطالبؓ):
حضرت امام حسینؓ، حضرت عباسؓ، حضرت علی اکبرؓ، حضرت علی اصغرؓ، حضرت عبداللہ بن علیؓ، حضرت جعفر بن علیؓ، حضرت عثمان بن علیؓ، حضرت ابوبکر بن علیؓ، حضرت ابوبکر بن حسنؓ، حضرت قاسم بن حسنؓ، حضرت عبداللہ بن حسنؓ، حضرت عون بن عبداللہ جعفرؓ، حضرت محمد بن عبداللہ جعفرؓ، حضرت عبداللہ بن مسلم بن عقیلؓ، حضرت محمد بن مسلمؓ، حضرت محمد بن سعید بن عقیلؓ، حضرت عبدالرحمن بن عقیلؓ، حضرت جعفر بن عقیلؓ۔
قبیلہ بنی اسد:
حضرت انس بن ہرسؓ، حضرت حبیب بن مظاہرؓ، حضرت مسلم بن عوسجہؓ، حضرت قیس بن مشیرؓ، حضرت ابو سماک عمر بن عبداللہؓ، حضرت برویر ہمدانیؓ، حضرت ہنظلہ بن اسدؓ، حضرت ابی س شکریؓ، حضرت عبدالرحمن رحبیؓ، حضرت سیف بن ہرسؓ، حضرت عامر بن عبداللہ ہمدانیؓ۔
قبیلہ جاہبی:
حضرت جنادہ بن ہرسؓ، حضرت مجمع بن عبداللہؓ، حضرت نفی بن ہلالؓ، حضرت حجاج بن مسروق موازنؓ۔
قبیلہ انصاری:
حضرت عمر بن قرتؓ، حضرت عبدالرحمن بن عبدالرّبؓ، حضرت جنادہ بن کعبؓ، حضرت عامر بن جنادہؓ، حضرت نعیم بن اجلانؓ، حضرت سعد بن ہرسؓ۔
قبیلہ بیجلی و خاصعمی:
حضرت زہیر بن قینؓ، حضرت سلمان بن مزاریبؓ، حضرت سعید بن عمرؓ، حضرت عبداللہ بن بشیرؓ۔
قبیلہ کندی و غفّاری:
حضرت یزید بن زید کندیؓ، حضرت حرب بن عمرو القیسؓ، حضرت زہیر بن عامرؓ، حضرت بشیر بن عامرؓ، حضرت عبداللہ ارواح غفّاریؓ، حضرت جون (غلام ابوذرؓ)۔
قبیلہ قلبی:
حضرت عبداللہ بن عامرؓ، حضرت عبدالاعلیٰ بن یزیدؓ، حضرت سلیم بن عامرؓ۔
قبیلہ عظدی:
حضرت قاسم بن حبیبؓ، حضرت زید بن سلیمؓ، حضرت نعمان بن عمرؓ۔
قبیلہ عبیدی:
حضرت یزید بن ثابتؓ، حضرت عامر بن مسلمؓ، حضرت سیف بن مالکؓ۔
قبیلہ تمیمی و طائی:
حضرت جابر بن حجاجیؓ، حضرت مسعود بن حجاجیؓ، حضرت عبدالرحمن بن مسعودؓ، حضرت باقر بن حئیؓ، حضرت عمار بن حسن طائیؓ۔
قبیلہ تغلبی:
حضرت زرغامہ بن مالکؓ، حضرت کنانہ بن عتیقؓ۔
قبیلہ جہانی و تمیمی:
حضرت عقیبہ بن سُلطؓ، حضرت حر بن یزید تمیمیؓ، (دوبارہ) حضرت عقیبہ بن سُلطؓ۔
متفرق شہداء:
حضرت ہبالہ بن علی شیبانیؓ، حضرت قناب بن عمرؓ، حضرت عبداللہ بن یقطرؓ، حضرت غلامِ ترکی (غلامِ امامِ سجادؓ)۔


یہ سب افراد قربانی، وفاداری، حق گوئی اور صداقت کی ایسی مثالیں ہیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔
حضرت حسینؓ کا قافلہ کوئی عام قافلہ نہ تھا، بلکہ ایک نظریہ، ایک پیغام، ایک تحریک تھا۔
یہ پیغام آج بھی امت کو بیدار کرتا ہے:
ظلم کے خلاف کھڑے ہو جاؤ، حق پر قائم رہو، اور اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ قربان کر دو۔
#حضرت_حسین
#شہادت_امام_حسین
#واقعہ_کربلا
#محرم_الحرام
#اصلاح_امت
#نواسہ_رسول
#HazratHussain
#MartyrOfKarbala
#Muharram
#GrandsonOfTheProphet
#Muharram2025
#BattleOfKarbala

No comments:

Post a Comment