Friday, July 4, 2025

امام حسین رضی اللہ عنہ کا یزید کے خلاف مؤقف — حق اور مزاحمت کی لازوال میراث

 

امام حسین رضی اللہ عنہ کا یزید کے خلاف مؤقف — حق اور مزاحمت کی لازوال میراث

امام حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی کربلا کے میدان میں شہادت اسلامی تاریخ کے سب سے اہم واقعات میں سے ایک ہے۔ یہ محض ایک افسوسناک واقعہ نہیں، بلکہ جرأت، اخلاقیات اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا ایک عظیم سبق ہے۔ بہت سے لوگ اس قربانی کو یاد کرتے ہیں، لیکن بہت کم اس پر غور کرتے ہیں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے خلاف کیوں قیام کیا؟ انہوں نے کیوں اس کی بیعت سے انکار کیا؟ اور کیا یہ مزاحمت، اتنے قلیل افراد کے ساتھ، اسلامی اصولوں کی روشنی میں جائز تھی؟

یزید کی ولی عہد نامزدگی پر امام حسینؓ اور اکابر صحابہ کا ردعمل

امام حسین رضی اللہ عنہ ان اہم شخصیات میں شامل تھے جنہوں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی، جس کے تحت انہوں نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد نامزد کیا۔ ان کے ساتھ عبداللہ بن زبیرؓ، عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ اور دیگر صحابہ نے بھی اس وراثتی خلافت کو غیر اسلامی قرار دیا، کیونکہ اسلامی قیادت کا معیار شوریٰ، تقویٰ اور اہلیت ہے، نہ کہ وراثت۔

اگر دینِ اسلام یزید کے پاس ہے، تو مجھے اس دین سے کوئی تعلق نہیں
تاریخ الکامل، ابن اثیر

یزید کی خلافت کا آغاز اور امام حسینؓ کی فوری مخالفت

یزید نے رجب 60 ہجری (اپریل 680 عیسوی) میں حکومت سنبھالی۔ کچھ ہی دنوں میں اُس نے مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ کو حکم دیا کہ وہ امام حسین رضی اللہ عنہ سے زبردستی بیعت لیں۔ امام حسینؓ نے فوراً انکار کیا اور مدینہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔

اسی وقت سے امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ آپ ماہ ذوالحجہ سے قبل مکہ مکرمہ میں موجود رہے اور وہاں آپ کو کوفہ کے لوگوں کی طرف سے ہزاروں خطوط موصول ہوئے جن میں انہوں نے امام حسینؓ سے ظلم کے خلاف قیادت کی درخواست کی۔

امام حسینؓ کا قیام — ذاتی نہیں، اصولی اور دینی تھا

امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے خلاف قیام ذاتی اقتدار کے لیے نہیں کیا، بلکہ اس لیے کیا کہ:

1.     یزید کی خلافت شوریٰ کے اسلامی اصول کے خلاف تھی۔

2.     یزید کا کردار اور عملشراب نوشی، فسق و فجور، دین سے غفلت خلافت کے لائق نہ تھا۔

3.     یزید کی بیعت کرنا گویا ظلم اور گمراہی کو جائز قرار دینا تھا۔

میں نے نہ فخر، نہ فساد اور نہ ظلم کے لیے خروج کیا، بلکہ اپنے نانا ﷺ کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں
تاریخ الطبری

یہ کوئی سیاسی بغاوت نہیں بلکہ دینی و اخلاقی فرض تھا۔

مکہ اور مدینہ میں فتنہ نہ پھیلانے کی کوشش

امام حسینؓ نے کبھی بھی مدینہ و مکہ میں خونریزی یا شورش برپا کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ:

  • وہ جانتے تھے کہ یہ مقامات حرمت والے ہیں۔
  • اگر وہ وہیں مزاحمت کرتے تو یزید کی فوج حملہ کر سکتی تھی۔
  • اس لیے آپ نے ذوالحجہ سے پہلے مکہ چھوڑ دیا تاکہ خانہ کعبہ کے احترام کو برقرار رکھا جائے۔

مسلم بن عقیلؓ کی شہادت اور واپسی کی پیشکش

جب امام حسینؓ کو معلوم ہوا کہ ان کے سفیر حضرت مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ میں شہید کر دیا گیا ہے، تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کو واپسی کی اجازت دی۔ لیکن جلد ہی یزیدی فوج نے انہیں کربلا کے مقام پر روک لیا۔ امام حسینؓ نے وہاں بھی امن کی کوشش کی، لیکن تمام پیشکشیں مسترد کر دی گئیں۔

امام حسینؓ کی تین پُرامن تجاویز

یزیدی لشکر کو لڑائی روکنے کے لیے امام حسینؓ نے تین آپشن دیے:

1.     مجھے مدینہ واپس جانے دیا جائے۔

2.     مجھے یزید سے براہ راست ملاقات کی اجازت دی جائے۔

3.     مجھے اسلامی سرحدوں کی طرف جانے دیا جائے تاکہ میں غیر مسلموں سے جہاد کروں۔

لیکن کوفہ کے گورنر ابن زیاد نے تینوں آپشن مسترد کیے اور صرف ایک شرط رکھی: بے قید و شرط بیعت یا قتل۔

امام حسینؓ نے اس ذلت آمیز مطالبے کو نامنظور کیا۔

اسلامی شریعت میں اگر:

  • ظلم ہو رہا ہو،
  • راستہ بند کر دیا گیا ہو،
  • امن کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں،

تو مظلوم کو مزاحمت کا حق ہے — چاہے اس کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو۔

جنہیں ظلم کیا گیا، انہیں لڑنے کی اجازت دی گئی ہے
سورۃ الحج 22:39

امام حسینؓ اور ان کے 72 جانثار ساتھیوں کو پانی سے محروم کیا گیا، گھیر لیا گیا، اور قتل کی دھمکی دی گئی۔ ان حالات میں لڑائی دینی، اخلاقی اور شریعت کے مطابق تھی۔

امام حسینؓ کی میراث — ظلم کے خلاف حتمی پیغام

امام حسین رضی اللہ عنہ کا قیام سیاسی یا قبائلی مسئلہ نہیں تھا۔ یہ حق اور باطل، عزت اور ذلت، اور اصول اور مفاد کے درمیان فرق کرنے والا قیام تھا۔

ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے
امام حسینؓ

کربلا کا واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ انصاف کے لیے کھڑا ہونا ہمیشہ درست ہوتا ہے، چاہے مخالف کتنا ہی طاقتور ہو۔ اسلام کبھی بھی ظالم حکمران کو برداشت نہیں کرتا، چاہے وہ خود کو خلیفہ کہے۔ اور بعض اوقات ایک مردِ حق کی قربانی پوری امت کا ضمیر جگا دیتی ہے۔

حوالہ جات:

الطبریتاریخ الرسل والملوک

ابن کثیرالبدایہ والنہایہ

ابن اثیرالکامل فی التاریخ

الذہبیسیر اعلام النبلاء

صحیح مسلم

سورۃ الحج (22:39)، سورۃ النساء (4:75)

 

امام ابو حنیفہؒ کا قول:

یزید اور اس کی حکومت اسلام کی نگاہ میں کسی طور جائز نہیں تھی
امام ابو حنیفہؒ (منقول از ابن عابدین)

 

No comments:

Post a Comment