Sunday, July 13, 2025

میں کچھ بھی نہیں — یہی میری سب سے بڑی خودی ہے — نور قریشی

 میں کچھ بھی نہیں — یہی میری سب سے بڑی خودی ہے — نور قریشی

میں ایک بندہ ہوں

میں مسکین ہوں، مسکینوں کا دوست ہوں

الفاظ میں سادہ، پر دل میں سچ کا جوش ہوں

میں غزل ہوں، کہ سانجھے سے بالا ہوں

کلام میں آسان، پر عمل میں سخت روش ہوں

 

خطاکار ہوں، تبھی تو شرمسار ہوں

مجھے کوئی اچھا کہے، یہ تلافی نہیں میری خطاؤں کا

میں تو بس مغفرت کا طالب ہوں

ہر لمحہ اس کی رحمت کا محتاج، ایک خالی پیالہ ہوں

 

دنیائے فریب سے ناآشنا

مادّیت کے خلاف، درسِ حق کی صدا ہوں

نہ واعظ، نہ زاہد، نہ دعویدار بزرگی

میں بس نادان ہوں، جو داناؤں سے کچھ سیکھا ہوا ہوں

 

ہر قدم پہ اسی کا فضل سہارا ہے

اسی کی رحمت سے سانسوں کا اجالا ہے

یہ جان، یہ مال، یہ اولاد، یہ علم

سب اسی کا ہے — میں تو بس عطا کا حوالہ ہوں

 

میری نگاہ قہّار و تیز نہ ہو

کہ میں خود غلام ہوں، اسی کا پوش ہوں

یہ زمین، یہ زماں، یہ وجود سب اس کا

میں کچھ بھی نہیں — یہی میری سب سے بڑی خودی ہے

 

میں سخت ہوں، سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں

جب کوئی رب کے حکم پر بات کرے

میں وہ کلمہ ہوں جو فرعونوں سے نہ ڈرے

میں وہ آواز ہوں جو جھوٹے نظام سے ٹکرا جائے

 

نہ دنیا کے سود و زیاں سے غرض

نہ تاج و تخت، نہ شہرت کی مرض

بس ایک کام ہے

حق کہنا، حق پر جینا، اور حق پر مر جانا فرض

 

ہزاروں دھاریں ہوں، میں ایک سر ہوں

میں بانگِ درا ہوں، درِ حق کی صدا ہوں

میں ایک عام بندہ، گناہوں کا مارا

مگر اس کے کرم سے زندہ، اسی کا سہارا

 

میں غزل نہیں، میں سجدے کی دعا ہوں

میں انکساری، میں بندگی، میں فانی وفا ہوں

میں وہ ہوں جو ہر لمحہ اُس کی طرف لوٹتا ہے

میں ایک بندہ ہوں… بس اُس کی رضا میں کھویا ہوا ہوں

نور قریشی

No comments:

Post a Comment