کیا آج بھی پاکستان کا تعلیمی نظام نوآبادیاتی اثرات سے جکڑا ہوا
Watch here at youtube https://www.youtube.com/watch?v=kD7Z_U1OiD0
or
facebook
کیا آج بھی پاکستان کا تعلیمی نظام نوآبادیاتی اثرات سے جکڑا ہوا
Watch here at youtube https://www.youtube.com/watch?v=kD7Z_U1OiD0
or
facebook
جمے ہوئے ذہنوں سے روشن مستقبل تک (والدین کے لیے شعور بیداری کا پیغام)
تحریر: نور
قریشی
دی فاؤنڈرز اسکول ڈی آئی خان میں
ہمارا یقین ہے کہ اصل تعلیم وہ ہے جو ذہنوں کو کھولتی ہے، نہ کہ صرف کاپیوں کو
بھرنے تک محدود ہو۔ ہمارے بچے صرف رٹنے اور حکم ماننے کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔ وہ
سوچنے، سوال کرنے، تلاش کرنے، اپنے خیالات کا اظہار کرنے اور زندگی میں کچھ بڑا
کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے
ملک کے زیادہ تر اسکول آج بھی پرانی اور جامد تعلیم پر چل رہے ہیں۔ وہاں صرف
رٹائی، صاف کاپی، استاد کا اندھا احترام، اور نمبر لینا ہی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔
باہر سے یہ نظام کامیاب دکھائی دیتا
ہے، لیکن اندر سے یہ بچوں کی سوچنے کی صلاحیت ختم کر دیتا ہے، سوال کرنے کی ہمت
چھین لیتا ہے، اور خوف کے سائے میں سیکھنے کا ماحول پیدا کرتا ہے۔
بچوں سے کہا
جاتا ہے: چپ رہو، بس لکھو، سوال مت کرو۔
غلطی کو سیکھنے
کا موقع سمجھنے کے بجائے سزا دی جاتی ہے۔
نتیجہ؟ بچے
اچھے نمبر تو لے لیتے ہیں، مگر زندگی کے اصل امتحانوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
مگر ہمارے بچے اس سے بہتر کے حق دار
ہیں۔
انہیں ایسی
تعلیم چاہیے جو صرف یاد نہ کرائے، بلکہ سمجھائے، سکھائے، اور کچھ نیا بنانے کی ہمت
دے۔
ایسی تعلیم
جہاں انہیں صرف "طالبعلم" نہیں، بلکہ ایک سوچنے والا، کرنے والا، بولنے
والا اور مستقبل کا رہنما سمجھا جائے۔
دی فاؤنڈرز اسکول میں ہم تخلیقی،
عملی اور مقصد والی تعلیم پر یقین رکھتے ہیں۔
ہم بچوں میں
اعتماد، تجسس اور مل کر کام کرنے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں
کہ بچے سوال کریں، مل کر کام کریں، سیکھنے کو سرگرمیوں اور منصوبوں کے ذریعے زندگی
سے جوڑیں۔
ہمارے اساتذہ صرف لیکچر دینے والے
نہیں، بلکہ ہر بچے کی رہنمائی کرنے والے ساتھی ہیں۔
ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ والدین
ہمارے اہم ساتھی ہیں۔ آپ صرف تماشائی نہیں، بلکہ اپنے بچے کی کامیابی کے سفر کا
اصل حصہ ہیں۔
ہم کھلے رابطے،
بامعنی ترقی اور گھر–اسکول کے مضبوط رشتے پر یقین رکھتے ہیں۔
آئیے! ایک نظر ڈالتے ہیں کہ
"جمے ہوئے تعلیمی نظام" اور "تخلیقی تعلیمی نظام" میں کیا فرق
ہے — تاکہ آپ خود فیصلہ کر سکیں کہ آپ کے بچے کے روشن مستقبل کے لیے کون سا راستہ
بہتر ہے:
جمی ہوئی تعلیم
رٹائی کو سیکھنے کا اصل طریقہ سمجھا
جاتا ہے
کامیابی = صاف کاپی + خاموشی
نصاب کو بغیر سمجھے رَٹا جاتا ہے
نظم = ڈر اور خاموشی
جانچ صرف تحریری نمبر پر
استاد مرکز میں، بچہ صرف سننے والا
سرگرمیاں اور سوالات کی گنجائش نہیں
غلطی = سزا، اصلاح نہیں
کمزور بچوں کو اسکول میں سپورٹ نہیں،
ٹیوشن بھیج دیا جاتا ہے
مذہبی تعلیم = صرف حفظ، مطلب یا عمل
نہیں
بچہ = نمبر، شخصیت نظر انداز
والدین = صرف رسمی ملاقاتیں، اصل
شمولیت نہیں
اسکول = عمارت اور اشتہارات کی
نمائش، اندر سے خالی
اساتذہ = بغیر تربیت، بغیر تعاون
کمزور بچے = نظر انداز
منصوبہ بندی = صرف کتاب ختم کرنا
توجہ = صرف فیس، سیکھنے کا معیار
نہیں
تخلیقی
تعلیم
سیکھنا = سمجھنا، اپنانا، تخلیق کرنا
کامیابی = گہرا علم، اظہار، اصل ترقی
نصاب + زندگی = مربوط تعلیم
نظم = عزت، شرکت اور خوداعتمادی
جانچ = تحریری، زبانی، عملی سرگرمیاں
بچہ = سیکھنے کا مرکز، آواز اہم
سوالات = خوش آمدید
غلطی = سیکھنے کا موقع
کمزور بچوں = کلاس میں انفرادی مدد
مذہبی تعلیم = مطلب، اقدار، عمل
بچہ = منفرد، قابل، باصلاحیت
والدین = سچے تعلیمی ساتھی
اسکول = اندر سے مضبوط نظام، بچے کی
حقیقی ترقی
اساتذہ = تربیت، تعاون، بہتری کے
مواقع
منصوبہ بندی = مقصد پر مبنی، نتیجہ
خیز
توجہ = سیکھنے کی بہتری، کاروبار بعد
میں
محترم والدین!
جمے ہوئے نظام
تعلیم کو محفوظ سمجھا جاتا ہے، مگر یہ آپ کے بچے کو نہ سوچنا سکھاتا ہے، نہ بولنا،
نہ اخلاقی فیصلے لینا، نہ قیادت۔ یہ بس رَٹنے والی مشینیں بناتا ہے۔
آئیے! ہم اس برف کو مل کر پگھلائیں۔
ایسی تعلیم کا
انتخاب کریں جو آپ کے بچے کو زندگی دے، شعور دے، مقصد دے۔
ایسا اسکول
چنیں جہاں آپ کا بچہ صرف رول نمبر نہ ہو، بلکہ ایک پہچانا ہوا، سنا گیا، سراہا گیا
انسان ہو۔
جہاں سیکھنا
زندہ ہو۔
جہاں بچے کا
مستقبل اصل ترجیح ہو — نہ کہ صرف مارکس۔
At The Founders School DIKhan, we believe that education should unlock minds—not lock notebooks. Our children are not born just to memorize and follow instructions—they are born to think, question, explore, express, and lead. Unfortunately, most schools in Pakistan still follow a frozen model of education—a rigid system that focuses only on rote memorization, neat notebooks, blind obedience, and test scores.
This frozen approach may look successful from the outside,
but in reality, it freezes creativity, silences curiosity, and creates a
fear-based learning environment. Students are expected to be quiet, copy from
the board, and never question the teacher. Mistakes are seen as failures
instead of learning opportunities. The result? A generation of children who may
score well on paper but lack the confidence, communication skills, and critical
thinking required for real-life success.
But our children deserve better.
They deserve an education that helps them understand, apply, and create.
They deserve to be seen not just as “students,” but as thinkers, doers,
speakers, and future leaders.
At The Founders School, we follow a creative and
purpose-driven education model. We nurture confidence, curiosity, and
collaboration in every classroom. We encourage students to ask questions, work
in teams, explore the real world, and apply their learning through activities
and projects. Our teachers are not just talkers—they are guides who help each
child grow in their own unique way.
We also believe that parents are our partners. You
are not just observers—you are an essential part of your child’s journey. We
believe in open communication, meaningful progress, and building a strong
home-school relationship.
Let’s look at the difference between Frozen and Creative
Education to understand why the right model matters for your child’s
future:
Frozen Education – Outdated and Limiting
Creative Education – Alive and Empowering
Dear Parents, frozen education may look safe and
familiar—but it doesn’t prepare your child for the real world. It produces
memorizing machines, not moral thinkers, not ethical leaders, and
not creative minds.
Let’s melt the ice together. Let’s choose an
education that brings life, meaning, and growth. Let’s choose a school
where your child is more than a roll number—where they are recognized, heard,
supported, and celebrated. Choose a school where learning is alive. Choose
a school that sees your child’s future, not just their marks.
A Disappointing Experience at Civil Hospital D.I. Khan – ENT Department
By Noor Qureshi
Imran Khan, once a symbol of hope, is now a name tied with
turmoil, propaganda, and reckless ambition. On 15 July 2025, from behind
bars, you once again tried to stir emotions and mislead the nation by saying, “If
anything happens to me in jail, General Asim Munir will be responsible.”
This is not courage. This is cowardice wrapped in
melodrama.
Let it be clear: you are not a victim of injustice — you
are the architect of this chaos. You are the man who openly challenged
the writ of the state, misused democratic platforms to spread hate, and
allowed your followers to attack GHQ, Corps Commander Houses, Radio
Pakistan, and military memorials. These weren’t peaceful protests — they
were acts of rebellion against the state, orchestrated under your
leadership.
You Made This Country Lawless
It was your toxic narrative, lies, and fake promises that
turned your followers into mobs. You played with their emotions, gave them hope
— only to crush it under your own ego and hunger for power.
Your government was incompetent and vindictive,
running a media trial of opposition, weaponizing NAB, and silencing dissent.
You proudly celebrated the downfall of others but can’t face the mirror today.
The law is finally reaching you, and now you cry wolf.
General Asim Munir Has Nothing to Do With Your Fall
This is not about one man. This is the institution of the
Pakistan Army defending its dignity and neutrality. You and your team tried
to destroy every institution — from the judiciary to the armed forces — just to
protect your personal narrative. You launched baseless accusations against
serving officers, intelligence agencies, and civil servants.
Now that accountability is knocking on your door, you shift
blame to General Asim Munir. Shame on you.
Your Politics is Based on Lies and Anarchy
Enough is enough, Imran Khan. The Pakistani people deserve
peace, not your chaos. They deserve unity, not your divisive politics. They
deserve truth, not your drama.
You are not above the law. You are not the savior you claim
to be. You are a man who betrayed the trust of millions, turned youth
into rioters, and weakened the very foundations of the nation you claimed to
build.
Stop inciting violence. Stop blaming others. Face your own
actions. The era of manipulation is over.
This nation has suffered enough. Now it is time for justice,
accountability, and healing — without you at the center of the stage.
بس بہت ہو گیا عمران خان – قوم کو
ڈرامہ نہیں، سچ چاہیے
عمران خان! تم کبھی امید کی علامت ہوا کرتے تھے، مگر آج تمہارا نام انتشار، فتنہ، اور جھوٹ کی علامت بن چکا ہے۔ 15 جولائی 2025 کو جیل سے ایک اور جذباتی بیان دے کر تم نے پھر سے قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ:
"اگر
مجھے جیل میں کچھ ہوا تو جنرل عاصم منیر ذمہ دار ہوں گے۔"
یہ بہادری نہیں، یہ بزدلی ہے جو
جھوٹ اور ڈرامے میں لپٹی ہوئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تم مظلوم نہیں ہو
— تم ہی اس انتشار کے اصل مجرم ہو۔ تم نے خود ریاست کو للکارا، آئین کی دھجیاں
اڑائیں، اور اپنے ماننے والوں کو جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤسز، ریڈیو پاکستان
اور شہداء کی یادگاروں پر حملوں کے لیے اکسایا۔ یہ مظاہرے نہیں، ریاست کے
خلاف بغاوت تھی، اور اس کا منصوبہ تمہارے دماغ میں تیار ہوا تھا۔
ملک کو لاقانونیت کی دلدل میں تم نے
دھکیلا
تمہاری زہریلی سیاست اور جھوٹے
بیانیے نے قوم کو تقسیم کر دیا۔ تم نے نوجوانوں کو خواب دکھائے، مگر ان کے ہاتھ
میں قانون شکنی کا ہتھیار تھما دیا۔ تمہاری حکومت بدترین کارکردگی، انتقام اور
تکبر کی علامت بن گئی۔
نہ تم نے معیشت سنبھالی، نہ انصاف
دیا، صرف میڈیا پر تماشے کیے اور اپوزیشن کو کچلنے کی کوشش کی۔ آج جب انصاف تمہارے
دروازے پر آیا ہے، تو تم پھر سے خود کو شہید بنانے کی ناکام کوشش کر رہے ہو۔
جنرل عاصم منیر کا تمہارے زوال سے
کوئی تعلق نہیں
یہ مسئلہ ایک فرد کا نہیں — یہ
ریاستِ پاکستان کے اداروں کا تحفظ ہے۔ تم نے ہر ادارے کو متنازع بنایا، افواج،
عدلیہ، اور حتیٰ کہ الیکشن کمیشن کو بھی۔ تم نے افسران پر بے بنیاد الزامات لگائے،
لیکس کروائیں، اور ملک کے اندر اور باہر ریاست کو بدنام کیا۔
جب تم سے اقتدار گیا، تو تم نے کہا
کہ "سازش ہوئی"۔ جب تمہارے کیسز سامنے آئے، تو تم نے کہا "انتقام
ہو رہا ہے"۔ اب جیل میں ہو، تو کہتے ہو "مجھے مار دیا جائے گا"۔
شرم کرو عمران
خان!
بس بہت ہو گیا۔ پاکستان مزید تمہاری
انا، تمہارے فتنوں، اور تمہارے جھوٹ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
یہ قوم سکون
چاہتی ہے، اتحاد چاہتی ہے، اور سچائی چاہتی ہے — نہ کہ تمہاری
اشتعال انگیز تقریریں اور آنسو بہاتے ڈرامے۔
اب مزید جھوٹ، مزید تماشے، اور مزید بلیک میلنگ نہیں چلے گی۔ تم قانون کے نیچے ہو، تم کوئی آسمانی مخلوق نہیں۔ ریاست تم سے بڑی ہے، ادارے تم سے محترم ہیں، اور قوم تم سے تنگ آ چکی ہے۔
قوم کو انصاف، امن، اور ترقی چاہیے — اور وہ تمہارے بغیر ممکن ہے۔
میں ایک بندہ
ہوں
میں مسکین ہوں، مسکینوں کا دوست ہوں
الفاظ میں
سادہ، پر دل میں سچ کا جوش ہوں
میں غزل ہوں،
کہ سانجھے سے بالا ہوں
کلام میں آسان،
پر عمل میں سخت روش ہوں
خطاکار ہوں،
تبھی تو شرمسار ہوں
مجھے کوئی اچھا
کہے، یہ تلافی نہیں میری خطاؤں کا
میں تو بس
مغفرت کا طالب ہوں
ہر لمحہ اس کی
رحمت کا محتاج، ایک خالی پیالہ ہوں
دنیائے فریب سے
ناآشنا
مادّیت کے
خلاف، درسِ حق کی صدا ہوں
نہ واعظ، نہ
زاہد، نہ دعویدار بزرگی
میں بس نادان
ہوں، جو داناؤں سے کچھ سیکھا ہوا ہوں
ہر قدم پہ اسی
کا فضل سہارا ہے
اسی کی رحمت سے
سانسوں کا اجالا ہے
یہ جان، یہ
مال، یہ اولاد، یہ علم
سب اسی کا ہے —
میں تو بس عطا کا حوالہ ہوں
میری نگاہ
قہّار و تیز نہ ہو
کہ میں خود
غلام ہوں، اسی کا پوش ہوں
یہ زمین، یہ
زماں، یہ وجود سب اس کا
میں کچھ بھی نہیں
— یہی میری سب سے بڑی خودی ہے
میں سخت ہوں، سیسہ
پلائی ہوئی دیوار ہوں
جب کوئی رب کے
حکم پر بات کرے
میں وہ کلمہ
ہوں جو فرعونوں سے نہ ڈرے
میں وہ آواز
ہوں جو جھوٹے نظام سے ٹکرا جائے
نہ دنیا کے سود
و زیاں سے غرض
نہ تاج و تخت،
نہ شہرت کی مرض
بس ایک کام ہے —
حق کہنا، حق پر
جینا، اور حق پر مر جانا فرض
ہزاروں دھاریں
ہوں، میں ایک سر ہوں
میں بانگِ درا
ہوں، درِ حق کی صدا ہوں
میں ایک عام
بندہ، گناہوں کا مارا
مگر اس کے کرم
سے زندہ، اسی کا سہارا
میں غزل نہیں،
میں سجدے کی دعا ہوں
میں انکساری، میں
بندگی، میں فانی وفا ہوں
میں وہ ہوں جو
ہر لمحہ اُس کی طرف لوٹتا ہے
میں ایک بندہ
ہوں… بس اُس کی رضا میں کھویا ہوا ہوں
نور قریشی
We Are Fortunate – We Are Pakistan
By Noor Qureshi
We are truly blessed — for we are Pakistan.
This land is not just a country; it is a divine gift from Allah.
In it, He united people of different ethnicities, languages, and cultures, binding them with the powerful thread of Islam and Muslim brotherhood.
Not based on race, tribe, or secularism — but on the eternal values of faith and unity.
This alone is enough to be thankful for.
Let us express our gratitude to Allah by dedicating ourselves, day and night, to every corner of this sacred land.
Let us elevate the people of Pakistan — morally, culturally, and intellectually.
Let each one of us begin with self-awareness, and extend that enlightenment across the nation.
That day is not far when this piece of earth shall become a true symbol of Islam…
A land of peace, and a light for the world.
So today, let us take a firm pledge:
That we will abandon division, prejudice, laziness, and selfishness.
We will rise above hatred and shallowness.
Together, with sincerity and passion, we will build a great and glorious nation — Pakistan.
ہم مادّے کے غلام
چمک دمک بڑھتی رہے،
سکون، آسائشیں، سہولتیں ہوں،
مگر حقیقت سے بہت دُور۔
قرآن
کو نہ سمجھے،
دل پژمُردہ ہے
کہ ہر تعلیم یافتہ،
اور انپڑھ جاہل ۔
خود سے
ناواقف،
زندگی کی تخلیق سے دُور۔
سفید
لباس میں ملبوس،
علمی گھمنڈ کے ساتھ،
سمجھے کہ ہم کامیاب ہیں۔
حقیقت میں
ہم ناکام ہیں۔
نور قریشی
تآج کا انسان ترقی کی بلندیاں چھو رہا ہے۔
سائنس، ٹیکنالوجی، فیشن، آسائشات، اور مادّی
سہولتوں کے پیچھے بھاگتا ہوا ایک ایسا معاشرہ وجود میں آ چکا ہے جو بظاہر تو
کامیاب نظر آتا ہے، مگر باطن میں ایک گہری کھوکھلاہٹ اور روحانی پیاس کا شکار ہے۔
ہم نہ
سمجھے، ہم نے مادّی چیزوں کو سب کچھ سمجھ لیا، چمک دمک، آرام و آسائش اور سہولتوں
کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہم حقیقت سے بہت دور نکل گئے۔ ہم نے سکون کو مال و دولت
میں تلاش کیا اور اصل سکون کے راستے یعنی اللہ اور قرآن کو پسِ پشت ڈال دیا۔ ہم نے
قرآن کو محض ایک کتابِ تلاوت سمجھا، اس کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ہم
نے تعلیم حاصل کی، ڈگریاں لیں، لیکن علم کی اصل روح، حکمت اور شعور سے محروم رہے۔
ہم تعلیم یافتہ ہو کر بھی بے عمل، اور انپڑھ ہو کر بھی غافل رہے۔ ہم نے اپنی اصل
پہچان، اپنی روح، اپنے مقصدِ زندگی کو بھلا دیا۔ ہم خود سے ناآشنا ہو چکے ہیں، نہ
یہ جانتے ہیں کہ ہم کون ہیں، نہ یہ کہ ہمیں کس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ ہم
سفید لباس پہن کر، خوشبو لگا کر، اور ظاہری شان و شوکت اختیار کر کے خود کو کامیاب
سمجھنے لگے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم ناکام ہو چکے ہیں۔ ہم نے دنیا کو سب
کچھ سمجھا اور آخرت کو فراموش کر دیا۔ ہم نے جسم کی پرورش کی، مگر روح کو بھوکا
مار دیا۔ ہم نے دوسروں کو دکھانے کے لیے جیا، خود کو بہتر بنانے کے لیے نہیں۔ اصل
کامیابی نہ دولت میں ہے، نہ ظاہری عزت میں، بلکہ سچی کامیابی رب کی پہچان میں، قرآن
کی سمجھ میں، اور زندگی کو مقصد کے ساتھ گزارنے میں ہے۔ ہمیں جاگنے کی ضرورت ہے،
ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، اور ہمیں کہاں جانا ہے۔ جب تک ہم
واپس اپنے رب، اپنے دین، اور اپنے اصل مقصد کی طرف نہیں لوٹیں گے، ہم نہ دنیا میں
کامیاب ہو سکتے ہیں، نہ آخرت میں۔