Monday, June 30, 2025

شہری اور جمہوری اقدار: ایک آئینہ جس سے ہم نظریں چراتے ہیں


شہری اور جمہوری اقدار: ایک آئینہ جس سے ہم نظریں چراتے ہیں

تحریر: نور قریشی

پاکستانی فخر سے خود کو اسلامی اقدار کا پیروکار کہتے ہیں۔ ہم انصاف، دیانتداری، اور عوامی خدمت کی بات کرتے ہیں — جو کہ ہمارے دین کی بنیادی تعلیمات ہیں۔ مگر جب بات ان اقدار کو عملی زندگی، خاص طور پر جمہوریت اور شہری ذمہ داریوں میں اپنانے کی آتی ہے، تو ہمارا طرزِ عمل بالکل مختلف نظر آتا ہے۔

ہم نمائندے انتخاب کرتے ہیں، مگر مقصد کچھ اور ہوتا ہے

جمہوریت ہمیں یہ حق دیتی ہے کہ ہم اپنے نمائندے منتخب کریں — وہ لوگ جو قانون سازی کریں، پالیسی بنائیں اور ملک کو ترقی کی راہ پر لے جائیں۔ مگر حقیقت میں ہم ووٹ دیتے ہیں:

  • شخصیت پرستی کی بنیاد پر، کارکردگی پر نہیں۔
  • برادری، زبان یا علاقے کی بنیاد پر، قابلیت پر نہیں۔
  • ذاتی فائدوں کے وعدوں پر، جیسے "گلی بنوا دوں گا"، نہ کہ وژن یا پالیسی پر۔

ہم اپنے ایم این اے یا ایم پی اے سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہماری گلی بنوائے، ہمارے عزیز کو نوکری دلائے، یا ہمارا بجلی کا بل معاف کروائے۔ ہم یہ نہیں پوچھتے کہ انہوں نے تعلیم، انصاف یا مقامی اداروں کے لیے کیا کیا ہے۔ ہم اپنا ووٹ مختصر فائدے کے بدلے میں بیچ دیتے ہیں، چاہے اس سے ہمارا علاقہ یا ملک نقصان میں جائے۔

آج کے دور میں

صرف وہی لوگ انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں جن کے پاس پیسہ ہو، اثر و رسوخ ہو، یا جھوٹ بولنے کی مہارت ہو۔

ایماندار، تعلیم یافتہ اور اہل لوگ یا تو الیکشن لڑنے سے کتراتے ہیں یا اگر لڑیں بھی، تو عوام انہیں سنجیدہ نہیں لیتے کیونکہ وہ "سیاست کا کھیل" کھیلنا نہیں جانتے۔

ہم سارا الزام نظام کو دیتے ہیں، مگر ہم ہی تو وہ نظام ہیں ہم ہی بار بار ان لوگوں کو منتخب کرتے ہیں، جن کے بارے میں ہم سب کچھ جانتے ہیں۔

ہم سب کچھ چاہتے ہیں، مگر اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے

ہم چاہتے ہیں:

مفت تعلیم، صحت، صاف پانی، تحفظ، سڑکیں، نوکریاں۔

مگر ہم میں سے بہت سے:

ٹیکس نہیں دیتے۔

بجلی چوری کرتے ہیں۔

ٹریفک قوانین توڑتے ہیں۔

زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں۔

ہم حکومت کو صرف "خدمت گزار" سمجھتے ہیں، شراکت دار نہیں۔ ہم خود قانون توڑتے ہیں مگر حکومت سے چاہتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک کرے۔ یہ حب الوطنی نہیں — یہ منافقت ہے۔

ہم اسلام کی بات کرتے ہیں، اسلامی نظام کے نعرے لگاتے ہیں۔ مگرہم اسی شخص کو ووٹ دیتے ہیں جو ہمیں فائدہ پہنچائے، چاہے وہ جھوٹا، کرپٹ یا ظالم ہی کیوں نہ ہو۔

  • ہم سچائی، خدمت، انصاف، اور اجتماعی ذمہ داری جیسی اسلامی تعلیمات کو نظر انداز کرتے ہیں۔

اسلامی قیادت امانت، عدل، اور خدمت پر مبنی ہوتی ہے — مگر ہم ان اصولوں کو اپنی ذاتی آسانی کے لیے بھول جاتے ہیں۔

ہمیں نمائندوں کے فرائض کا علم ہی نہیں

اکثر ووٹرز کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ایم این اے یا ایم پی اے کے اصل فرائض کیا ہوتے ہیں۔ ہم ان سے:

  • نالیاں ٹھیک کرنے،
  • سڑکیں بنانے،
  • پانی کے مسائل حل کرنے کی امید رکھتے ہیں۔

حالانکہ یہ سب کام بلدیاتی حکومتوں کے ہوتے ہیں — جو یا تو غیر فعال ہیں یا سیاسی طور پر غیر مؤثر بنا دی گئی ہیں۔ جب مقامی حکومتیں ختم ہو جاتی ہیں، تو سیاستدان خدمت گزار بن جاتے ہیں، قانون ساز نہیں اور جمہوریت صرف وعدوں اور سفارشوں کی منڈی بن کر رہ جاتی ہے۔

ہم نے برسوں یہی سیکھا ہے:

  • کہ اقتدار سفارش، تعلقات، اور شارٹ کٹ سے حاصل ہوتا ہے۔
  • کہ اصولوں پر نہیں، فائدے پر زندہ رہا جاتا ہے۔

ہم نے وہی کچھ اپنایا جو ہم نے طاقتوروں سے دیکھا: سفارش، خود غرضی، اور چالاکی۔ اگر ہم اسی راستے پر چلتے رہے، تو نہ کوئی نظام ٹھیک ہوگا، نہ قوم مضبوط بنے گی۔

بہتر لیڈروں کا انتظار مت کریںخود بہتر بنیں۔

  • سچ بولیں،
  • ایمانداری سے ووٹ دیں،
  • قانون کا احترام کریں،
  • بغیر کسی لالچ کے اپنی برادری کی خدمت کریں۔

کیونکہ آخرکار:

ایک ملک اتنا ہی ایماندار، انصاف پسند، اور جمہوری ہوتا ہے، جتنا کہ اُس کے شہری ہوتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment