عمران
خان — سیاست میں سکے کا وہی چہرہ
تحریر:
نور قریشی
عمران
خان ایک عالمی شہرت یافتہ کرکٹ کھلاڑی اور 1992 کے عالمی کپ کے فاتح کپتان کے طور
پر جانے جاتے ہیں۔ 1996 میں انہوں نے "تحریکِ انصاف" کے نام سے ایک نئی
جماعت قائم کی اور خود کو ایک نجات دہندہ، دیانت دار، اور تبدیلی کا علمبردار قرار
دیا۔ لیکن کیا حقیقت بھی وہی تھی جو دعویٰ تھا؟ عمران خان چودہ برس تک سیاست میں
کوئی خاطر خواہ مقام حاصل نہ کر سکے۔ ان کے جلسے ویران، ووٹ بینک کمزور، اور تنظیم
غیر فعال رہی۔ 2011 کے لاہور جلسے میں غیر معمولی مقبولیت ملی — مگر یہ اچانک عروج
ریاستی طاقتور اداروں کی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ دراصل، عمران خان کی
سیاست کو زمین عوام نے نہیں، بااختیار حلقوں نے دی۔
ریاستِ
مدینہ کا نعرہ مذہبی اور جذباتی کشش کے لیے استعمال ہوا۔ لیکن سود پر مبنی مالیاتی
نظام جوں کا توں رہا۔ عدلیہ میں اسلامی اصلاحات نہ ہو سکیں۔ غربت میں کمی کے بجائے
مہنگائی، بے روزگاری اور قرضوں میں اضافہ ہوا۔ ریاستی عدل، فلاح، یا احتساب کا
کوئی عملی ماڈل نافذ نہ ہو سکا۔ اسلام کا نام لیا، مگر نہ کوئی قانون بنایا، نہ
اسلامی اقدار نافذ کی گئیں۔
عمران
خان نے سادگی کے دعوے کیے، مگر روزانہ بنی گالہ سے سرکاری ہیلی کاپٹر میں دفتر آنا
جانا ان کے شاہانہ طرزِ عمل کا ثبوت تھا۔ کروڑوں روپے کے پروٹوکول، سیکیورٹی، اور
دیگر اخراجات اُن کے قول و فعل کے تضاد کو ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے موقف بدلنے کو
قیادت کی خوبی قرار دیا، اور جنہیں چور کہتے رہے، انہیں اتحادی بنا لیا جیسے ق
لیگ، متحدہ قومی موومنٹ، بلوچستان عوامی پارٹی وغیرہ۔ ان کے عمل سے ظاہر ہوا کہ
اصل ہدف ریاستی تبدیلی نہیں بلکہ صرف وزیر اعظم کی کرسی تھی۔
عمران
خان کی تقاریر اور عوامی جلسے اخلاقی تربیت کے بجائے تمسخر، نفرت، اور سیاسی
بدزبانی کا مرکز بن گئے۔ "چیری بلاسم"، "ڈیزل"، "چوروں
کا ٹولہ"، "بے غیرت اسمبلی"، "بھیگی بلی" جیسے الفاظ ان
کی زبان میں عام رہے۔ ایک رہنما کا اصل کردار اس کی زبان سے ظاہر ہوتا ہے — اور
عمران خان نے اپنی زبان سے نفرت، تقسیم اور بدتمیزی کو فروغ دیا۔
پارٹی
کے اندرونی معاملات بھی جمہوری نہ رہے۔ عمران خان اپنی جماعت میں واحد طاقتور
شخصیت بنے رہے۔ باشعور اور اصولی لوگ یا تو خاموش کر دیے گئے یا جماعت سے نکال دیے
گئے۔ کوئی دوسرا قائد یا رہنما ابھر نہ سکا۔ نظریہ پیچھے چلا گیا، اور ذاتی
وفاداری پر جماعت چلائی گئی۔
خیبر
پختونخوا میں تحریک انصاف کو مسلسل بارہ سال حکومت ملی۔ ابتدا میں چند بہتر
اقدامات کیے گئے، جیسے صحت کارڈ، پولیس کی تنظیم نو، اور شجرکاری مہم۔ تاہم، وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ وہی روایتی کمزوریاں، بدعنوانی، اور انتظامی نااہلی ابھر آئی۔
پشاور شہر میں سرکاری بس سروس کا منصوبہ بار بار تاخیر کا شکار ہوا۔ پولیس میں
سیاسی مداخلت دوبارہ لوٹ آئی، ہسپتال بدحال رہے، اسکولوں میں اساتذہ کی کمی برقرار
رہی۔ بلدیاتی ادارے فعال نہ ہو سکے، اور مقامی حکومتوں کو اختیار منتقل کرنے کے
وعدے پورے نہ ہوئے۔
عمران
خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کو "امریکہ کی سازش" قرار دیا۔ "بالکل
نہیں" جیسے نعرے لگے، مگر 2019 میں امریکی صدر سے ملاقاتیں اور تعاون کی
خواہش بھی نظر آئی۔ حکومت ختم ہونے کے بعد بھی قریبی ساتھی امریکہ سے تعلقات بہتر
بنانے میں سرگرم رہے۔
فلسطین
اور اسرائیل کے معاملے میں ان کا مؤقف کمزور رہا۔ بین الاقوامی سطح پر بھی خودداری کا دعویٰ کمزور
عمل کے ساتھ تھا۔
عمران
خان نے ذرائع ابلاغ، خواتین کی سیاسی شرکت، اظہارِ رائے، اور مغربی جمہوریت کے
اصولوں کو اپنایا۔ مگر وہی عمران خان ریاستِ مدینہ کا نعرہ بھی لگاتے رہے۔ یہ تضاد
ثابت کرتا ہے کہ انہوں نے مغربی طرزِ سیاست تو اپنایا مگر اس کی اقدار کو نہ
اپنایا۔ اسلامی قانون سازی یا عدالتی اصلاحات کا کوئی نقشہ سامنے نہ آیا۔
انہوں
نے مخالفین پر بدعنوانی کے الزامات لگائے، مگر ثبوت نہ دے سکے۔ اپنی جماعت میں
بدعنوان افراد کو شامل کیا، اور ذاتی وفاداری کو نظریے پر ترجیح دی۔
انتخابی
عمل پر حملے اور جمہوریت سے بیزاری:
جب بھی انتخابات کا نتیجہ ان کے خلاف آیا،
انتخابی نظام کو رَد کر دیا، مگر جب وہی نظام ان کو کامیاب کرے تو مکمل خاموشی
اختیار کی۔ 2014
میں ڈی چوک دھرنا، پارلیمان پر حملہ، اور بعد میں
9 مئی کے واقعات — ان سب نے ان کی جمہوریت سے کمزوری وابستگی کو ظاہر کیا۔
معاشی
پالیسیوں میں غیر تسلسل ہر تین چھ
ماہ بعد نئی معاشی حکمت عملی سامنے آتی رہی۔ اس غیر مستقل مزاجی نے معیشت کو مزید
نقصان پہنچایا۔
اکثر یہ دیکھا گیا کہ عمران خان کی سیاست
میں ذات، انتقام اور انا اہم رہے — قومی مفاد یا اتفاق کمزور ہوتا گیا۔ ہر ادارے
کو "یا میرے ساتھ یا میرے خلاف" کے اصول پر چلایا — چاہے وہ عدلیہ ہو،
فوج، الیکشن کمیشن یا میڈیا۔
اقتدار
میں رہتے ہوئے عمران خان نے کبھی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید نہیں کی، بلکہ بارہا کہا کہ
ہم ایک پیج پر ہیں۔ انہوں نے جنرل باجوہ کی تعریف کی، اور مکمل تعاون کو اپنی
کامیابی قرار دیا۔ مگر جیسے ہی اقتدار سے ہٹایا گیا، اسی اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا
نشانہ بنایا، "نیوٹرلز" کو بزدلی کا طعنہ دیا، اور فوجی قیادت کو عوامی
طور پر سازشی، بدعنوان اور ملک دشمن قرار دیا۔ یہ طرزِ عمل جرات مندی نہیں بلکہ
صرف کرسی چھن جانے کے غصے، مایوسی اور اقتدار پرستی کی علامت تھا۔
اگرچہ
ان پر سخت تنقید بنتی ہے، لیکن ان کے چند مثبت اقدامات بھی قابلِ ذکر ہیں:
احساس پروگرام — غربت میں کمی اور مالی
معاونت کے لیے ایک منظم حکمت عملی۔ • صحت کارڈ — خیبر پختونخوا اور پنجاب میں ہر
شہری کو سالانہ مفت علاج کی سہولت۔ • بلین ٹری سونامی — ماحولیاتی بہتری کے لیے بین
الاقوامی سطح پر سراہا گیا منصوبہ۔ • سٹیزن پورٹل — شہریوں کی شکایات کے حل کے لیے
ڈیجیٹل نظام۔ • نوجوانوں کے لیے قرض اور تربیت کے پروگرام — کامیاب جوان اسکیم۔
یہ
وضاحت بھی ضروری ہے کہ میں کسی بھی روایتی سیاسی جماعت — جیسے پاکستان پیپلز
پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (نواز) یا کسی اور پرانی جماعت — کا دفاع نہیں کر رہا۔ یہ
تمام جماعتیں بھی اسی پرانے، بوسیدہ، اور گندے سیاسی تالاب کا حصہ ہیں جہاں اقربا
پروری، بدعنوانی، اور عوامی استحصال موجود ہے۔ مگر عمران خان، ان کی جماعت، اور ان
کے حمایتیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ انہیں ایک ایماندار، اسلامی، نجات دہندہ، اور
وعدے پورا کرنے والا عظیم قائد سمجھتے ہیں۔ وہ جو دعویٰ کرتے ہیں، اس پر ان کے
چاہنے والے اندھا یقین رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان پر سوال اٹھانا ضروری ہو جاتا ہے
— کیونکہ جتنا بڑا دعویٰ، اتنی بڑی جوابدہی بھی درکار ہوتی ہے۔
حقیقی
رہنما وہ ہوتا ہے جو اپنے ساتھ مزید رہنما تیار کرتا ہے ایسی ٹیم بناتا ہے جو وژن سے ایسی
ٹیم بناتا ہے جو وژن سے جُڑی ہو، تربیت یافتہ ہو، اور انفرادی و اجتماعی زندگی میں
اقدار کی پیروی کرے۔ قائد وہ ہوتا ہے جو تنقید کو سنتا ہے، اصلاح کرتا ہے، اور
اختلاف رائے کو برداشت کر کے اسے قومی بہتری کے لیے استعمال کرتا ہے۔ قائد
اپنے مخالفین کو دشمن نہیں سمجھتا، بلکہ انہیں ساتھ لے کر چلتا ہے تاکہ ملک
اجتماعی ترقی کی طرف بڑھ سکے۔ لیکن عمران خان کی سیاست میں ان اعلیٰ قیادتی اوصاف
کا فقدان رہا۔ وہ صرف تنقید، الزام اور مخالفت کی سیاست میں مہارت رکھتے ہیں۔
جب وہ حکومت میں تھے، تو سارا وقت اپوزیشن کو چور، ڈاکو، غدار کہنے میں صرف
کیا — جبکہ جب اپوزیشن میں آئے تو حکومت پر الزامات کی سیاست جاری رکھی۔ ایسا
لگا کہ عمران خان کی سیاست کا محور صرف اقتدار کا حصول اور دوسروں کو نیچا
دکھانا رہا، نہ کہ ملک کی حقیقی ترقی یا قومی اتفاق۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان
نہ اپنی پارٹی میں قیادت تیار کر سکے، نہ اداروں سے ہم آہنگی قائم رکھ سکے، اور نہ
ہی تنقید کو اصلاح کی صورت میں قبول کیا۔ ان کی سیاست بھی روایتی سیاستدانوں کی
طرح صرف موقع پرستی، مقبولیت، اور کرسی کی دوڑ پر مبنی رہی۔
اگر تم
صرف نعرے سنو گے اور عمل نہ دیکھو گے تو ہمیشہ دھوکہ کھاؤ گے۔ رہنما کو اس کے
کردار، فیصلوں اور اخلاق سے پرکھو — جذباتی وابستگی سے نہیں۔ سچ، عدل اور اصول پر
کھڑے رہو۔ دین کو نعروں میں نہیں، کردار میں تلاش کرو۔

No comments:
Post a Comment