Monday, June 30, 2025

شہری اور جمہوری اقدار: ایک آئینہ جس سے ہم نظریں چراتے ہیں


شہری اور جمہوری اقدار: ایک آئینہ جس سے ہم نظریں چراتے ہیں

تحریر: نور قریشی

پاکستانی فخر سے خود کو اسلامی اقدار کا پیروکار کہتے ہیں۔ ہم انصاف، دیانتداری، اور عوامی خدمت کی بات کرتے ہیں — جو کہ ہمارے دین کی بنیادی تعلیمات ہیں۔ مگر جب بات ان اقدار کو عملی زندگی، خاص طور پر جمہوریت اور شہری ذمہ داریوں میں اپنانے کی آتی ہے، تو ہمارا طرزِ عمل بالکل مختلف نظر آتا ہے۔

ہم نمائندے انتخاب کرتے ہیں، مگر مقصد کچھ اور ہوتا ہے

جمہوریت ہمیں یہ حق دیتی ہے کہ ہم اپنے نمائندے منتخب کریں — وہ لوگ جو قانون سازی کریں، پالیسی بنائیں اور ملک کو ترقی کی راہ پر لے جائیں۔ مگر حقیقت میں ہم ووٹ دیتے ہیں:

  • شخصیت پرستی کی بنیاد پر، کارکردگی پر نہیں۔
  • برادری، زبان یا علاقے کی بنیاد پر، قابلیت پر نہیں۔
  • ذاتی فائدوں کے وعدوں پر، جیسے "گلی بنوا دوں گا"، نہ کہ وژن یا پالیسی پر۔

ہم اپنے ایم این اے یا ایم پی اے سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہماری گلی بنوائے، ہمارے عزیز کو نوکری دلائے، یا ہمارا بجلی کا بل معاف کروائے۔ ہم یہ نہیں پوچھتے کہ انہوں نے تعلیم، انصاف یا مقامی اداروں کے لیے کیا کیا ہے۔ ہم اپنا ووٹ مختصر فائدے کے بدلے میں بیچ دیتے ہیں، چاہے اس سے ہمارا علاقہ یا ملک نقصان میں جائے۔

آج کے دور میں

صرف وہی لوگ انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں جن کے پاس پیسہ ہو، اثر و رسوخ ہو، یا جھوٹ بولنے کی مہارت ہو۔

ایماندار، تعلیم یافتہ اور اہل لوگ یا تو الیکشن لڑنے سے کتراتے ہیں یا اگر لڑیں بھی، تو عوام انہیں سنجیدہ نہیں لیتے کیونکہ وہ "سیاست کا کھیل" کھیلنا نہیں جانتے۔

ہم سارا الزام نظام کو دیتے ہیں، مگر ہم ہی تو وہ نظام ہیں ہم ہی بار بار ان لوگوں کو منتخب کرتے ہیں، جن کے بارے میں ہم سب کچھ جانتے ہیں۔

ہم سب کچھ چاہتے ہیں، مگر اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے

ہم چاہتے ہیں:

مفت تعلیم، صحت، صاف پانی، تحفظ، سڑکیں، نوکریاں۔

مگر ہم میں سے بہت سے:

ٹیکس نہیں دیتے۔

بجلی چوری کرتے ہیں۔

ٹریفک قوانین توڑتے ہیں۔

زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں۔

ہم حکومت کو صرف "خدمت گزار" سمجھتے ہیں، شراکت دار نہیں۔ ہم خود قانون توڑتے ہیں مگر حکومت سے چاہتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک کرے۔ یہ حب الوطنی نہیں — یہ منافقت ہے۔

ہم اسلام کی بات کرتے ہیں، اسلامی نظام کے نعرے لگاتے ہیں۔ مگرہم اسی شخص کو ووٹ دیتے ہیں جو ہمیں فائدہ پہنچائے، چاہے وہ جھوٹا، کرپٹ یا ظالم ہی کیوں نہ ہو۔

  • ہم سچائی، خدمت، انصاف، اور اجتماعی ذمہ داری جیسی اسلامی تعلیمات کو نظر انداز کرتے ہیں۔

اسلامی قیادت امانت، عدل، اور خدمت پر مبنی ہوتی ہے — مگر ہم ان اصولوں کو اپنی ذاتی آسانی کے لیے بھول جاتے ہیں۔

ہمیں نمائندوں کے فرائض کا علم ہی نہیں

اکثر ووٹرز کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ایم این اے یا ایم پی اے کے اصل فرائض کیا ہوتے ہیں۔ ہم ان سے:

  • نالیاں ٹھیک کرنے،
  • سڑکیں بنانے،
  • پانی کے مسائل حل کرنے کی امید رکھتے ہیں۔

حالانکہ یہ سب کام بلدیاتی حکومتوں کے ہوتے ہیں — جو یا تو غیر فعال ہیں یا سیاسی طور پر غیر مؤثر بنا دی گئی ہیں۔ جب مقامی حکومتیں ختم ہو جاتی ہیں، تو سیاستدان خدمت گزار بن جاتے ہیں، قانون ساز نہیں اور جمہوریت صرف وعدوں اور سفارشوں کی منڈی بن کر رہ جاتی ہے۔

ہم نے برسوں یہی سیکھا ہے:

  • کہ اقتدار سفارش، تعلقات، اور شارٹ کٹ سے حاصل ہوتا ہے۔
  • کہ اصولوں پر نہیں، فائدے پر زندہ رہا جاتا ہے۔

ہم نے وہی کچھ اپنایا جو ہم نے طاقتوروں سے دیکھا: سفارش، خود غرضی، اور چالاکی۔ اگر ہم اسی راستے پر چلتے رہے، تو نہ کوئی نظام ٹھیک ہوگا، نہ قوم مضبوط بنے گی۔

بہتر لیڈروں کا انتظار مت کریںخود بہتر بنیں۔

  • سچ بولیں،
  • ایمانداری سے ووٹ دیں،
  • قانون کا احترام کریں،
  • بغیر کسی لالچ کے اپنی برادری کی خدمت کریں۔

کیونکہ آخرکار:

ایک ملک اتنا ہی ایماندار، انصاف پسند، اور جمہوری ہوتا ہے، جتنا کہ اُس کے شہری ہوتے ہیں۔

Civic and Democratic Values: The Mirror We Avoid

 

 Civic and Democratic Values: The Mirror We Avoid

By Noor Qureshi

Pakistanis proudly call themselves followers of Islam. We talk about justice, honesty, and public service — values deeply rooted in our religion. But when it comes to practicing those values in public life, particularly in democracy and civic duties, our actions tell a very different story.

Democracy gives us the power to choose our representatives — those who will legislate, create policies, and guide national development. But in reality, we often vote based on:

  • Personality cults, not performance.
  • Biradari (clan) or ethnic ties, not competence.
  • Promises of personal favors, like fixing a street— not vision or policy.

We demand that the MNA or MPA build our street, get our cousin a job, or stop our electricity bill. We do not ask what they have done for education, justice, or local institutions. In short, we trade votes for short-term benefits, even if it harms our community or future generations.

Only those with money, influence, or the ability to lie convincingly are usually able to contest and win elections. Honest, competent, or educated people rarely stand a chance, and if they do, they’re often ignored because they don't play the dirty game of politics. We blame the system, but we are the system — we choose these leaders, again and again, knowing what they are.

We Demand Services, But Avoid Our Responsibilities. We want everything: like Free education, healthcare, clean water, safety, infrastructure, but many of us don’t pay taxes, steal electricity, violate traffic rules, or occupy land illegally. We see the state as a provider — not as a partnership. We expect the government to solve all problems while we break the same laws we want others to follow.

This is not patriotism. This is not faith. This is entitlement and hypocrisy.

We talk about Islamic values, say we want Islamic governance. But in practice,  we elect the person who benefits us, even if he lies, cheats, or is corrupt , we ignore Islamic teachings of truth, service, justice, and collective responsibility. True Islamic leadership is based on Amanah (trust), Adal (justice), and Khidmat (service). But we ignore these principles for personal convenience.

Most voters don’t know the basic responsibilities of an MNA or MPA. We ask them to: Fix sewers, Build roads, Solve water issues. But these are the job of local governments — which are either inactive or politically sidelined. In absence of strong local bodies, politicians become providers instead of lawmakers — and democracy becomes a market of promises, not policies.

People learned to survive by favor, not fairness. So we copied what we saw: shortcuts, sifarish, and self-interest. But if we keep repeating this, we will never build a just or stable nation.

If you are a young Pakistani, don’t wait for better leaders — be one. Start by speaking the truth, Voting responsibly, Respecting the law and Serving your community without reward.

Sunday, June 29, 2025

اہلِ بیت کا مقام، معصومیت کا مفہوم

 اسلامی تاریخ میں اہلِ بیت کا مقام، معصومیت کا مفہوم، اور دینی قیادت کا نظام ایک اہم علمی، اعتقادی، اور تہذیبی موضوع ہے۔ دو بڑے مکتبہ ہائے فکر — اہلِ سنت والجماعت اور شیعہ اثنا عشریہ — ان امور پر مختلف آرا رکھتے ہیں۔ آئیے اس کا ایک جائزہ لیتے ہیں

عقائد کا موازنہ
موضوع: معصوم کون؟
اہلِ سنت: صرف انبیاء
شیعہ: انبیاء + بارہ امام
قرآن و حدیث میں صرف انبیاء کی معصومیت مذکور ہے۔ دوسرے نیک لوگ خطا سے بچ سکتے ہیں، مگر معصوم نہیں کہلاتے۔

موضوع: دین مکمل کب ہوا؟
اہلِ سنت: نبی کریم ﷺ پر
شیعہ: بارہ اماموں کے ذریعے

سورہ مائدہ کی آیت اليوم أكملتُ لكم دينكم دین کے مکمل ہونے کا اعلان ہے۔ بعد میں کسی بھی رہنمائی کو دین کی تکمیل نہیں کہا جا سکتا۔

موضوع: قیادت کا طریقہ
اہلِ سنت: شوریٰ، اجماع امت
شیعہ: امام مقرر من جانب اللہ

قرآن میں وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ کا اصول موجود ہے۔ خلفائے راشدین اسی اصول کے تحت منتخب ہوئے۔

موضوع: اطاعت کس کی؟
اہلِ سنت: اللہ، رسول، اور شریعت کے مطابق حکم
شیعہ: امام کی بات چونکہ معصوم ہے، اس کی اطاعت فرض ہے

اطاعت صرف اس بات کی ہو گی جو قرآن و سنت کے مطابق ہو۔ اندھی تقلید قابلِ قبول نہیں۔

موضوع: دین کی حفاظت کون کرتا ہے؟
اہلِ سنت: اللہ خود
شیعہ: امام کے ذریعے
سورہ حجر: إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون. دین کی حفاظت اللہ کے ذمہ ہے، کسی انسان پر نہیں۔

موضوع: اہلِ بیت کا مقام
اہلِ سنت: اعلیٰ مقام، محبت واجب
شیعہ: بارہ امام معصوم و رہبر

اہلِ بیت کا احترام فرض ہے۔ معصومیت کی دلیل قرآن و سنت سے نہیں ملتی


اہلِ سنت کے علمائے کرام کی آراء
:
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ: معصوم صرف نبی ہوتا ہے، دیگر نیک لوگ خطا سے محفوظ ہو سکتے ہیں مگر معصوم نہیں۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ : اہل بیت کی فضیلت اپنی جگہ، مگر معصومیت کی دلیل نہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ : سب سے افضل خلیفہ حضرت ابوبکرؓ، پھر عمرؓ، پھر عثمانؓ، پھر علیؓ ہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ : اہل بیت کی محبت واجب، مگر دین اتباعِ قرآن و سنت سے قائم ہے۔
قرآن مجید سے رہنمائی

آیت تطہیر (33:33): فضیلت کا بیان ہے، معصومیت کی صراحت نہیں
حدیث غدیر: من کنت مولاه فعلي مولاه — محبت و قربت کی دلیل، سیاسی امامت کی نہیں

اہلِ بیت کے اقوال

حضرت علیؓ: حق کو پہچانو، شخص کو نہیں. ابوبکرؓ اور عمرؓ نبی ﷺ کے بعد بہترین ہیں
حضرت فاطمہؓ: عبادت صرف اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے
حضرت حسنؓ: میں نے امت کے اتحاد کے لیے خلافت چھوڑ دی
حضرت حسینؓ: میں امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں، فساد کے لیے نہیں
امام جعفر صادقؒ: اگر میری بات قرآن و سنت کے مطابق ہو تو مانو، ورنہ چھوڑ دو

Imran Khan — The Same Face of the Coin in Politics - Noor Qureshi

 


Imran Khan — The Same Face of the Coin in Politics
Written by: Noor Qureshi

Imran Khan is globally known as a celebrated cricketer and the victorious captain of Pakistan’s 1992 World Cup team. In 1996, he founded a new political party, Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI), presenting himself as a savior, an honest leader, and a harbinger of change. But was the reality the same as the claim?

For the first fourteen years in politics, Imran Khan gained little traction. His rallies remained empty, his vote bank weak, and his organization inactive. He experienced a sudden rise in popularity during the 2011 Lahore rally — but this surge was not possible without the backing of powerful state institutions. In truth, it wasn’t the public that gave Imran Khan political ground, but certain influential circles.

The slogan of a "State of Madinah" was used to emotionally and religiously attract the public. Yet, the interest-based financial system remained untouched. No Islamic judicial reforms were enacted. Instead of reducing poverty, inflation, unemployment, and national debt increased. No practical model of justice, welfare, or accountability was ever implemented. Islam was invoked in speeches, but no laws were passed, nor were Islamic values enforced.

He claimed to promote simplicity, yet commuted daily in a government helicopter from Bani Gala — a sign of his royal lifestyle. Millions were spent on his protocol, security, and other luxuries — a clear contradiction between his words and actions. He called shifting stances a leadership trait, and partnered with those he once called corrupt — such as PML-Q, MQM, and BAP. His actions revealed that the real aim was not national reform, but securing the Prime Minister’s seat.

His speeches and public gatherings became known more for mockery, hate, and abusive language than for moral training. Phrases like “Cherry Blossom,” “Diesel,” “Thieves’ Gang,” “Spineless Assembly,” and “Wet Cat” were frequently used. A true leader is reflected in his speech — and Imran Khan’s words spread division, hatred, and disrespect.

His party’s internal affairs were far from democratic. Imran Khan remained the sole power center. Educated and principled individuals were either silenced or expelled. No second-tier leadership emerged. Ideology faded into the background, and the party was run based on personal loyalty.

PTI governed Khyber Pakhtunkhwa for twelve consecutive years. While some initial steps were commendable — such as the health card, police restructuring, and tree plantation campaign — traditional flaws soon resurfaced: corruption, administrative inefficiency, and poor governance. Peshawar's BRT project faced repeated delays. Political interference returned to the police force. Hospitals deteriorated, schools remained understaffed, and promises to empower local bodies were never fulfilled.

After losing power, Khan blamed it on a U.S.-backed conspiracy. Chants of “Absolutely Not” rang loud — yet in 2019, he was seen meeting the U.S. President, expressing willingness to cooperate. Even after his government’s fall, his close aides continued lobbying for better ties with the U.S.

His stance on Palestine and Israel remained weak. On the global stage, his rhetoric of independence lacked firm actions.

While embracing Western media, women’s political participation, freedom of speech, and democratic principles — he simultaneously chanted for a “State of Madinah.” This contradiction showed that although he adopted Western political strategies, he never embraced their core values. No Islamic legislation or judicial reform plan ever materialized.

He accused opponents of corruption but failed to present evidence. Meanwhile, he inducted corrupt individuals into his own party and prioritized personal loyalty over ideology.

He undermined electoral processes and showed disdain for democracy: rejecting election results when they didn't favor him, but staying silent when the same system worked in his favor. From the 2014 D-Chowk sit-in, the storming of Parliament, to the events of May 9 — all reflected his fragile commitment to democratic norms.

His economic policies were marked by inconsistency — with a new strategy introduced every few months, damaging the economy further.

In his politics, personal ego, revenge, and narcissism took center stage — while national unity and interest took a back seat. He treated every institution with an “either with me or against me” mindset — be it the judiciary, military, election commission, or media.

While in power, he never criticized the establishment, often declaring “we are on the same page.” He praised General Bajwa and credited him for his success. But once removed from power, he turned on the same establishment — accusing them of conspiracy, corruption, and betrayal. This is not courage — but the frustration of losing power.

Despite heavy criticism, it’s important to acknowledge some of his positive initiatives:

  • Ehsaas Program — a structured strategy to reduce poverty and offer financial assistance
  • Health Card — providing free annual healthcare in KP and Punjab
  • Billion Tree Tsunami — globally recognized for environmental improvement
  • Citizen Portal — a digital system for public complaints
  • Youth Programs — including training and loans under Kamyab Jawan Scheme

It must also be clarified that this is not a defense of traditional parties like PPP, PML-N, or others — all of whom are products of a decaying political system rife with nepotism, corruption, and exploitation.

However, the issue with Imran Khan, his party, and his supporters is the blind belief that he is an honest, Islamic savior and a promise-keeping leader. When claims are that grand, accountability must be equally serious.

A true leader develops more leaders — builds a vision-driven, trained team, rooted in personal and collective values. A true leader listens to criticism, corrects mistakes, and embraces dissent as a means to national improvement. He does not treat opponents as enemies but includes them in the journey of national progress.

But these noble leadership traits have been absent in Imran Khan’s politics. He mastered blame, mockery, and division — spending his time in government accusing the opposition of treason and corruption, and doing the same when in opposition.

It appears that his politics have always revolved around power — not real development or national unity. He neither cultivated leadership within his party, nor maintained harmony with institutions, nor accepted criticism for reform. His politics, much like other traditional politicians, remain rooted in opportunism, popularity, and the race for power.

If you only listen to slogans and ignore actions, you will always be deceived. Judge a leader by their character, decisions, and ethics — not by emotional attachment. Stand for truth, justice, and principle. Seek religion not in slogans, but in character.

عمران خان — سیاست میں سکے کا وہی چہرہ

 



عمران خان — سیاست میں سکے کا وہی چہرہ
 
تحریر: نور قریشی

عمران خان ایک عالمی شہرت یافتہ کرکٹ کھلاڑی اور 1992 کے عالمی کپ کے فاتح کپتان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ 1996 میں انہوں نے "تحریکِ انصاف" کے نام سے ایک نئی جماعت قائم کی اور خود کو ایک نجات دہندہ، دیانت دار، اور تبدیلی کا علمبردار قرار دیا۔ لیکن کیا حقیقت بھی وہی تھی جو دعویٰ تھا؟ عمران خان چودہ برس تک سیاست میں کوئی خاطر خواہ مقام حاصل نہ کر سکے۔ ان کے جلسے ویران، ووٹ بینک کمزور، اور تنظیم غیر فعال رہی۔ 2011 کے لاہور جلسے میں غیر معمولی مقبولیت ملی — مگر یہ اچانک عروج ریاستی طاقتور اداروں کی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ دراصل، عمران خان کی سیاست کو زمین عوام نے نہیں، بااختیار حلقوں نے دی۔

ریاستِ مدینہ کا نعرہ مذہبی اور جذباتی کشش کے لیے استعمال ہوا۔ لیکن سود پر مبنی مالیاتی نظام جوں کا توں رہا۔ عدلیہ میں اسلامی اصلاحات نہ ہو سکیں۔ غربت میں کمی کے بجائے مہنگائی، بے روزگاری اور قرضوں میں اضافہ ہوا۔ ریاستی عدل، فلاح، یا احتساب کا کوئی عملی ماڈل نافذ نہ ہو سکا۔ اسلام کا نام لیا، مگر نہ کوئی قانون بنایا، نہ اسلامی اقدار نافذ کی گئیں۔

عمران خان نے سادگی کے دعوے کیے، مگر روزانہ بنی گالہ سے سرکاری ہیلی کاپٹر میں دفتر آنا جانا ان کے شاہانہ طرزِ عمل کا ثبوت تھا۔ کروڑوں روپے کے پروٹوکول، سیکیورٹی، اور دیگر اخراجات اُن کے قول و فعل کے تضاد کو ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے موقف بدلنے کو قیادت کی خوبی قرار دیا، اور جنہیں چور کہتے رہے، انہیں اتحادی بنا لیا جیسے ق لیگ، متحدہ قومی موومنٹ، بلوچستان عوامی پارٹی وغیرہ۔ ان کے عمل سے ظاہر ہوا کہ اصل ہدف ریاستی تبدیلی نہیں بلکہ صرف وزیر اعظم کی کرسی تھی۔

عمران خان کی تقاریر اور عوامی جلسے اخلاقی تربیت کے بجائے تمسخر، نفرت، اور سیاسی بدزبانی کا مرکز بن گئے۔ "چیری بلاسم"، "ڈیزل"، "چوروں کا ٹولہ"، "بے غیرت اسمبلی"، "بھیگی بلی" جیسے الفاظ ان کی زبان میں عام رہے۔ ایک رہنما کا اصل کردار اس کی زبان سے ظاہر ہوتا ہے — اور عمران خان نے اپنی زبان سے نفرت، تقسیم اور بدتمیزی کو فروغ دیا۔

پارٹی کے اندرونی معاملات بھی جمہوری نہ رہے۔ عمران خان اپنی جماعت میں واحد طاقتور شخصیت بنے رہے۔ باشعور اور اصولی لوگ یا تو خاموش کر دیے گئے یا جماعت سے نکال دیے گئے۔ کوئی دوسرا قائد یا رہنما ابھر نہ سکا۔ نظریہ پیچھے چلا گیا، اور ذاتی وفاداری پر جماعت چلائی گئی۔

خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو مسلسل بارہ سال حکومت ملی۔ ابتدا میں چند بہتر اقدامات کیے گئے، جیسے صحت کارڈ، پولیس کی تنظیم نو، اور شجرکاری مہم۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہی روایتی کمزوریاں، بدعنوانی، اور انتظامی نااہلی ابھر آئی۔ پشاور شہر میں سرکاری بس سروس کا منصوبہ بار بار تاخیر کا شکار ہوا۔ پولیس میں سیاسی مداخلت دوبارہ لوٹ آئی، ہسپتال بدحال رہے، اسکولوں میں اساتذہ کی کمی برقرار رہی۔ بلدیاتی ادارے فعال نہ ہو سکے، اور مقامی حکومتوں کو اختیار منتقل کرنے کے وعدے پورے نہ ہوئے۔

عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کو "امریکہ کی سازش" قرار دیا۔ "بالکل نہیں" جیسے نعرے لگے، مگر 2019 میں امریکی صدر سے ملاقاتیں اور تعاون کی خواہش بھی نظر آئی۔ حکومت ختم ہونے کے بعد بھی قریبی ساتھی امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے میں سرگرم رہے۔

فلسطین اور اسرائیل کے معاملے میں ان کا مؤقف کمزور رہا۔  بین الاقوامی سطح پر بھی خودداری کا دعویٰ کمزور عمل کے ساتھ تھا۔

عمران خان نے ذرائع ابلاغ، خواتین کی سیاسی شرکت، اظہارِ رائے، اور مغربی جمہوریت کے اصولوں کو اپنایا۔ مگر وہی عمران خان ریاستِ مدینہ کا نعرہ بھی لگاتے رہے۔ یہ تضاد ثابت کرتا ہے کہ انہوں نے مغربی طرزِ سیاست تو اپنایا مگر اس کی اقدار کو نہ اپنایا۔ اسلامی قانون سازی یا عدالتی اصلاحات کا کوئی نقشہ سامنے نہ آیا۔

انہوں نے مخالفین پر بدعنوانی کے الزامات لگائے، مگر ثبوت نہ دے سکے۔ اپنی جماعت میں بدعنوان افراد کو شامل کیا، اور ذاتی وفاداری کو نظریے پر ترجیح دی۔

انتخابی عمل پر حملے اور جمہوریت سے بیزاری: جب بھی انتخابات کا نتیجہ ان کے خلاف آیا، انتخابی نظام کو رَد کر دیا، مگر جب وہی نظام ان کو کامیاب کرے تو مکمل خاموشی اختیار کی۔ 2014 میں ڈی چوک دھرنا، پارلیمان پر حملہ، اور بعد میں 9 مئی کے واقعات — ان سب نے ان کی جمہوریت سے کمزوری وابستگی کو ظاہر کیا۔

معاشی  پالیسیوں میں غیر تسلسل  ہر تین چھ ماہ بعد نئی معاشی حکمت عملی سامنے آتی رہی۔ اس غیر مستقل مزاجی نے معیشت کو مزید نقصان پہنچایا۔

اکثر یہ دیکھا گیا کہ عمران خان کی سیاست میں ذات، انتقام اور انا اہم رہے — قومی مفاد یا اتفاق کمزور ہوتا گیا۔ ہر ادارے کو "یا میرے ساتھ یا میرے خلاف" کے اصول پر چلایا — چاہے وہ عدلیہ ہو، فوج، الیکشن کمیشن یا میڈیا۔

اقتدار میں رہتے ہوئے عمران خان نے کبھی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید نہیں کی، بلکہ بارہا کہا کہ ہم ایک پیج پر ہیں۔ انہوں نے جنرل باجوہ کی تعریف کی، اور مکمل تعاون کو اپنی کامیابی قرار دیا۔ مگر جیسے ہی اقتدار سے ہٹایا گیا، اسی اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا، "نیوٹرلز" کو بزدلی کا طعنہ دیا، اور فوجی قیادت کو عوامی طور پر سازشی، بدعنوان اور ملک دشمن قرار دیا۔ یہ طرزِ عمل جرات مندی نہیں بلکہ صرف کرسی چھن جانے کے غصے، مایوسی اور اقتدار پرستی کی علامت تھا۔

اگرچہ ان پر سخت تنقید بنتی ہے، لیکن ان کے چند مثبت اقدامات بھی قابلِ ذکر ہیں:

احساس پروگرام — غربت میں کمی اور مالی معاونت کے لیے ایک منظم حکمت عملی۔ • صحت کارڈ — خیبر پختونخوا اور پنجاب میں ہر شہری کو سالانہ مفت علاج کی سہولت۔ • بلین ٹری سونامی — ماحولیاتی بہتری کے لیے بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا منصوبہ۔ • سٹیزن پورٹل — شہریوں کی شکایات کے حل کے لیے ڈیجیٹل نظام۔ • نوجوانوں کے لیے قرض اور تربیت کے پروگرام — کامیاب جوان اسکیم۔

یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ میں کسی بھی روایتی سیاسی جماعت — جیسے پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (نواز) یا کسی اور پرانی جماعت — کا دفاع نہیں کر رہا۔ یہ تمام جماعتیں بھی اسی پرانے، بوسیدہ، اور گندے سیاسی تالاب کا حصہ ہیں جہاں اقربا پروری، بدعنوانی، اور عوامی استحصال موجود ہے۔ مگر عمران خان، ان کی جماعت، اور ان کے حمایتیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ انہیں ایک ایماندار، اسلامی، نجات دہندہ، اور وعدے پورا کرنے والا عظیم قائد سمجھتے ہیں۔ وہ جو دعویٰ کرتے ہیں، اس پر ان کے چاہنے والے اندھا یقین رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان پر سوال اٹھانا ضروری ہو جاتا ہے — کیونکہ جتنا بڑا دعویٰ، اتنی بڑی جوابدہی بھی درکار ہوتی ہے۔

حقیقی رہنما وہ ہوتا ہے جو اپنے ساتھ مزید رہنما تیار کرتا ہے  ایسی ٹیم بناتا ہے جو وژن سے  ایسی ٹیم بناتا ہے جو وژن سے جُڑی ہو، تربیت یافتہ ہو، اور انفرادی و اجتماعی زندگی میں اقدار کی پیروی کرے۔ قائد وہ ہوتا ہے جو تنقید کو سنتا ہے، اصلاح کرتا ہے، اور اختلاف رائے کو برداشت کر کے اسے قومی بہتری کے لیے استعمال کرتا ہے۔ قائد اپنے مخالفین کو دشمن نہیں سمجھتا، بلکہ انہیں ساتھ لے کر چلتا ہے تاکہ ملک اجتماعی ترقی کی طرف بڑھ سکے۔ لیکن عمران خان کی سیاست میں ان اعلیٰ قیادتی اوصاف کا فقدان رہا۔ وہ صرف تنقید، الزام اور مخالفت کی سیاست میں مہارت رکھتے ہیں۔ جب وہ حکومت میں تھے، تو سارا وقت اپوزیشن کو چور، ڈاکو، غدار کہنے میں صرف کیا — جبکہ جب اپوزیشن میں آئے تو حکومت پر الزامات کی سیاست جاری رکھی۔ ایسا لگا کہ عمران خان کی سیاست کا محور صرف اقتدار کا حصول اور دوسروں کو نیچا دکھانا رہا، نہ کہ ملک کی حقیقی ترقی یا قومی اتفاق۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نہ اپنی پارٹی میں قیادت تیار کر سکے، نہ اداروں سے ہم آہنگی قائم رکھ سکے، اور نہ ہی تنقید کو اصلاح کی صورت میں قبول کیا۔ ان کی سیاست بھی روایتی سیاستدانوں کی طرح صرف موقع پرستی، مقبولیت، اور کرسی کی دوڑ پر مبنی رہی۔

اگر تم صرف نعرے سنو گے اور عمل نہ دیکھو گے تو ہمیشہ دھوکہ کھاؤ گے۔ رہنما کو اس کے کردار، فیصلوں اور اخلاق سے پرکھو — جذباتی وابستگی سے نہیں۔ سچ، عدل اور اصول پر کھڑے رہو۔ دین کو نعروں میں نہیں، کردار میں تلاش کرو۔

 

علم، کردار، اور مقصد — آپ کے بچے کی تعلیم کس راستے پر ہے


 

علم، کردار، اور مقصد — آپ کے بچے کی تعلیم کس راستے پر ہے

محترم والدین،

آپ کے بچے 18 سے 21 سال کی عمر تک آپ کی نگرانی، رہنمائی اور تربیت میں ہوتے ہیں۔ اس کے بعد وہ زندگی کے سفر پر اکیلے روانہ ہوتے ہیں — اور ان کے ساتھ صرف وہی علم، کردار اور سوچ ہوگی جو آپ نے ان میں پیدا کی ہوگی۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"
تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے، اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔"
(
صحیح بخاری و مسلم)

یہ ذمہ داری صرف کھلانے پلانے تک محدود نہیں — بلکہ اخلاق، تعلیم، کردار اور دین کی رہنمائی بھی شامل ہے۔

خود سے سوال کریں:

🔹 کیا آپ نے ان کی رہنمائی بچپن سے صحیح انداز میں کی ہے؟
🔹 کیا وہ ایسے تعلیمی ماحول میں ہیں جہاں وہ خود سوچ سکیں، مسائل کا حل تلاش کر سکیں اور باوقار زندگی گزار سکیں؟
🔹 کیا آپ نے انہیں ایسا مسلمان اور انسان بنایا ہے جو معاشرے میں روشنی بنے یا صرف ایک "فالوور"؟

غور کریں

ہم 16 سال کے بچوں کو دیکھتے ہیں جو ایک جملہ اعتماد سے نہیں بول سکتے۔
ہم 12 سال کے بچوں کو دیکھتے ہیں جو صرف رٹّا لگا کر امتحانات دیتے ہیں اور سوال ذرا مختلف ہو تو گھبرا جاتے ہیں۔
ہم ایسے نوجوانوں سے ملتے ہیں جنہیں نہ اپنی طاقتوں کا علم ہے، نہ مقصدِ زندگی کا، نہ فیصلہ سازی کی قوت۔

یہ تعلیم نہیں — یہ خاموش تباہی ہے۔

دینِ اسلام میں تعلیم کا معیار

📖 "کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے، برابر ہو سکتے ہیں؟"
(
سورۃ الزمر: 9)

📖 "علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔"
(
سنن ابن ماجہ)

لیکن کیسا علم؟ ایسا علم جو اللہ کے قریب کرے، شعور دے، سچائی سکھائے، اور عمل و کردار پیدا کرے نہ کہ صرف نمبرات، ڈگری یا مغرور سوچ۔

یہ وقت سوچنے کا ہے

کیا ان کی تعلیم تخلیقی صلاحیت، تجسس، اور تنقیدی سوچ پیدا کر رہی ہے — یا صرف حفظ شدہ معلومات؟
کیا وہ صرف نمبرات کے پیچھے دوڑ رہے ہیں — یا اپنی ذات اور معاشرے میں کچھ قیمتی اضافہ کر رہے ہیں؟
کیا وہ خود سوچنے والے، فیصلے کرنے والے انسان بن رہے ہیں — یا ایک منجمد دماغ والے ہجوم کے پیروکار؟

اپنے اردگرد دیکھیں

بچے جو اعتماد سے بات نہیں کر سکتے۔
نوجوان جو خود فیصلہ نہیں کر سکتے۔
جوان جو بغیر رہنمائی کے زندگی میں قدم نہیں رکھ سکتے۔

کل انہیں آپ کی نہیں، بلکہ وہ طاقت چاہیے ہوگی جو آپ نے ان میں پیدا کرنی تھی۔

📖 "اور قیامت کے دن ہر شخص سے اس امانت کے بارے میں پوچھا جائے گا جو اس کے حوالے کی گئی تھی۔"
(
سورۃ الاحزاب)

صرف پیٹ بھرنا ہمارا مقصد نہیں ہے۔
ہم عزت دار انسان ہیں — نہ کہ بھیڑوں کا ریوڑ۔

اب عمل کا وقت ہے:

ہم سے رابطہ کریں — چاہے آپ کا بچہ کسی بھی اسکول میں ہو۔
 
دی فاؤنڈرز اسکول کا دورہ کریں — اور حقیقی سیکھنے والا ماحول خود دیکھیں۔
ہمارے اگلے والدین آگاہی سیشن میں شامل ہوں — جہاں ہم آپ کو جدید تقاضوں اور اسلامی اقدار دونوں کے مطابق رہنمائی فراہم کریں گے۔

آئیں، اپنے بچوں کے لیے ایسا راستہ منتخب کریں جو انہیں دنیا اور آخرت میں کامیابی دے۔

آپ کا آج کا فیصلہ، آپ کے بچے کے کل کی بنیاد ہے۔
آئیں ہم سوچنے والے، عمل کرنے والے، اور یقین رکھنے والے انسان تیار کریں۔
ایسے بچے جو اپنی زندگی اور آخرت کا مقصد پہچانتے ہوں۔

 

نیک تمناؤں کے ساتھ،
نور عالم شاہ قریشی
مینجنگ ڈائریکٹر
دی فاؤنڈرز اسکول / فاؤنڈیشن ماڈل پبلک اسکول

#دیفاؤنڈرز_اسکول
#
فاؤنڈیشنماڈل_پبلکاسکول
#
اسلامی_تعلیم
#
والدین_کی_ذمہ_داری
#
تربیت_اولاد
#
مدارس_ڈیرہاسماعیلخان
#KPK_
تعلیم
#
پاکستان_میں_تعلیم
#
مسلمان_والدین
#
کردار_کی_تعمیر
#
اسلامی_نقطہ_نظر
#NoorAlamQureshi
#
تبدیلی_کی_طرف
#
سوچنے_والے_بچے
#
تعلیم_مقصد_کے_ساتھ
#
طلبہ_کی_رہنمائی
#
مدارس_پاکستان 


Education – Your Children - Don’t Raise Followers — Raise Thinkers & Believers


 Parents: Your Child’s Tomorrow Starts with Your Decisions Today

Education – Your Children - Don’t Raise Followers — Raise Thinkers & Believers

Dear Parents,

Your children are under your care, protection, and supervision until the age of 18 to 21. After that, they will walk into life — alone — equipped only with the values, skills, and mindset you helped build.

The Prophet Muhammad (peace be upon him) said:
Each of you is a shepherd, and each of you is responsible for his flock. (Sahih Bukhari & Sahih Muslim)

This includes your child’s guidance, education, and moral direction — for which you will be questioned by Allah.

Ask yourself sincerely:

·         Have you given them the right guidance — spiritually, morally, and intellectually?

·         Are they in an environment that encourages them to think, solve problems, and live with purpose?

·         Are they being raised as strong, responsible Muslims — or just as memorizing machines chasing grades?

Think About This:

We meet 16-year-olds who can’t speak confidently.
We see 12-year-olds who panic in exams because they’ve never been taught to think — only to memorize.
We talk to teenagers who don’t know their own strengths, values, or purpose in life.

This is not education. This is silent destruction.

Islam’s Emphasis on True Education:

·         Are those who know equal to those who do not know? Surah Az-Zumar 39:9

·         Seeking knowledge is an obligation upon every Muslim — male and female. (Sunan Ibn Majah)

But not just any knowledge — knowledge that leads to awareness, truth, character, and connection with Allah. Not the kind that leads to blind following, ego, and directionless living.

It’s time to reflect:

·         Is your child’s education building curiosity, creativity, and critical thinking — or just copying and cramming?

·         Are they learning to chase exam scores — or becoming capable of solving real-world problems?

·         Are they being raised to contribute meaningfully — or just following the crowd, lost in confusion?

Look Around You:

• Children who can’t speak with confidence.
• Teens who can’t think independently.
• Youth who can’t make decisions without help.

And tomorrow, they would not need your money — but they will need the strength, wisdom, and faith you were supposed to build in them.

Feeding the stomach is not our only duty.
We are dignified human beings — not a race of sheep.

If you are unsure about your child’s direction — or even your own decisions — it’s time to act now.

·          Talk to us — even if your child studies somewhere else.

·         Visit The Founders School — see a true learning environment in action.

·         Attend our next Parent Awareness Session — where we guide with facts, not fear, through both modern needs and Islamic values.

On the Day of Judgment, we will be asked about the trust (amanah) of our children.
Let’s prepare not just for this world — but for the Hereafter.

Your decisions today will echo in your child’s tomorrow — and in your accountability before Allah.

Let’s build Thinkers. Doers. Believers.
Let’s raise children who know their aim in life and the life after.

Warm regards,
Noor Alam Shah Qureshi
Managing Director
The Founders School / Foundation Model Public School