Saturday, November 22, 2025

نکاح، مہر، رخصتی، ولیمہ، جہیز اور رہائش — ایک جامع رہنمائی


نکاح، مہر، رخصتی، ولیمہ، جہیز اور رہائش — ایک جامع رہنمائی

اسلام میں نکاح ایک عبادت، ذمہ داری اور پاکیزہ بندھن ہے۔ قرآن و سنت نے نکاح کو آسان، بابرکت اور سادگی سے کرنے کی تعلیم دی ہے۔ آج بہت سی رسومات اور ثقافتی عادات نے اصل سنت کو مشکل اور بھاری بنا دیا ہے۔ یہ مضمون نکاح کے تمام اہم پہلوؤں کی وضاحت کرتا ہے تاکہ والدین، نوجوان اور معاشرہ آسانی سے سمجھ سکیں۔

 شادی کے مراحل

شادی کے مرحلے درج ذیل ہیں:

منگنی → نکاح → رخصتی → ولیمہ

منگنی

منگنی صرف وعدہ اور بات چیت کا مرحلہ ہے، جس میں خاندان طے کرتے ہیں کہ لڑکا اور لڑکی مستقبل میں نکاح کریں گے۔

یہ شرعی نکاح نہیں ہے اور نہ ہی قانونی یا شرعی پابندی آتی ہے۔

قواعد منگنی کے دوران:

جسمانی تعلق یا قربت جائز نہیں۔

بات چیت ہمیشہ اسلامی حدود میں ہو۔

تحفے یا چھوٹے زیورات دینا صرف ثقافتی روایت ہے، شرعی ضرورت نہیں۔

منگنی زیادہ طویل نہ ہو تاکہ معاشرتی یا اخلاقی مسائل پیدا نہ ہوں۔

نکاح

نکاح اسلامی شادی کا شرعی اور قانونی معاہدہ ہے۔

نکاح کے بعد لڑکا اور لڑکی اسلامی طور پر شوہر اور بیوی بن جاتے ہیں۔

نکاح کے لیے ضروری شرائط:

دلہا اور دلہن کی رضامندی

دو بالغ مسلمان مرد گواہ

مہر کی تعیین

ولی کی موجودگی (اکثر ضروری)

نکاح کے بعد رخصتی یا ولیمہ ہونے کی شرط نہیں، نکاح خود ہی شادی کو جائز بناتا ہے۔

رخصتی

رخصتی وہ موقع ہے جب دلہن اپنے والدین کے گھر سے شوہر کے گھر جاتی ہے۔

نکاح کے فوراً بعد یا کچھ دن، ہفتے یا مہینے بعد ہو سکتی ہے۔

رخصتی نکاح کا حصہ نہیں بلکہ ازدواجی زندگی کا آغاز ہے۔

اسلام میں رخصتی سادگی سے ہوتی ہے؛ دلہن کو بہت زیادہ سامان یا مہنگا لباس لانے کی ضرورت نہیں۔

دلہن کے لیے ضروری:

2–4 جوڑے

چند ذاتی اشیاء اور معمولی زیورات

قرآن اور ضروری چیزیں

ولیمہ

ولیمہ نکاح کے بعد سنت ہے، نکاح سے پہلے نہیں۔

مقصد: شادی کا اعلان اور خوشی کا اشتراک۔

ولیمہ کی رہنمائی:

جتنا میسر ہو اتنا کریں

دعوت صرف قریبی رشتہ دار، پڑوسی اور دوستوں تک محدود ہو

دور دراز کے رشتہ داروں کو بلانا ضروری نہیں، خاص طور پر اگر مالی استطاعت کم ہو

سادگی ضروری، فضول خرچی اور دکھاوا ممنوع

نبی ﷺ نے فرمایا: "جتنا میسر ہو ولیمہ کرو، خواہ ایک بکری ہی سے کیوں نہ ہو"

مہر

مہر دلہن کا لازمی اور شرعی حق ہے۔

مہر دلہن کے خاندان کو دینا غلط ہے، یہ صرف لڑکی کی ملکیت ہے۔

مہر کی اقسام:

مہرِ معجل – فوراً ادا کرنا ہوتا ہے

مہرِ مؤجل – بعد میں ادا کیا جا سکتا ہے، مگر دینا لازم ہے

مہر کی مقدار:

اسلام نے کوئی مقررہ رقم نہیں، مرد کی استطاعت کے مطابق مناسب ہونا چاہیے

عصرِ حاضر میں:

اوسط آمدنی والے خاندان: 50,000–150,000 روپے یا 1–2 تولہ سونا

کم حیثیت والے خاندان: 10,000–50,000 روپے

خوشحال خاندان: جتنا آسانی سے دے سکیں، بغیر دکھاوے

مہر دلہن کے خاندان کو دینا غلط ہے مہر صرف لڑکی کا حق ہے، اس کے والدین یا بھائی استعمال نہیں کر سکتے۔ مہر کو زیور، فریج، بیڈ، فرنیچر، جہیز خریدنے میں استعمال کرنا ضروری نہیں لڑکی چاہے تو نہ بھی خریدے، چاہے تو اپنے پاس محفوظ رکھے۔ یہ اس کی ملکیت ہے۔

جہیز

اسلام میں جہیز دینا فرض نہیں۔

والدین پر کوئی ذمہ داری نہیں کہ وہ دلہن کے لیے فرنیچر، کپڑے یا گھر کا سامان دیں۔

تحفہ دینا والدین کی خوشی اور استطاعت پر منحصر ہے، زبردستی نہیں۔

 رہائش

شوہر پر یہ ذمہ داری ہے کہ بیوی کو پرائیویسی، سکون اور عزت دے۔

الگ گھر ضروری نہیں، لیکن الگ کمرہ یا پرائیویسی لازمی ہے۔

بیوی کو سسرال کے کام پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، اگر خوشی سے کرے تو ثواب ہے۔

 

شوہر کی ذمہ داریاں

·       مہر ادا کرنا

·       بیوی کا مکمل نفقہ (کھانا، کپڑا، رہائش)

·       عزت و احترام

·       محبت اور حسن سلوک

·       ظلم یا زیادتی سے بچانا

·       بیوی کی عزتِ نفس اور پرائیویسی کی حفاظت

 

والدین کی ذمہ داری

  • والدین پر بیٹی کو جہیز دینا فرض نہیں
  • کچھ دینا چاہتے ہیں تو اپنی استطاعت کے مطابق سادہ تحفہ دے سکتے ہیں

 

شادی یا نکاح: شرعی فرق

نکاح:

قرآن و سنت میں شرعی شادی

شادی

: عام زبان میں شادی، ثقافتی تقریب، رخصتی یا ولیمہ وغیرہ کے لیے استعمال

 

. آج کی بدعتیں اور اسلام سے متصادم رسوم

مہنگی شادی
بھاری مہر بطور دکھاوا
غیر ضروری جہیز
کئی فنکشن
لڑکی والوں پر بوجھ
دکھاوا، روشنی، موسیقی
سوشل میڈیا کی نمائش
لڑکی کو سسرال کی نوکرانی سمجھنا

 

مہر کا شرعی فریضہ دولہے پر ہے، اور دولہے کے والد صرف اپنی استطاعت اور خوشی سے مدد کر سکتے ہیں، مگر یہ فرض نہیں۔ شادی کے بعد دلہن کے لیے گھر، فرنیچر اور روزمرہ کا سامان دولہے کی ذمہ داری ہے، والدین صرف اپنی رضا سے مدد دے سکتے ہیں۔ ولیمہ بھی دولہے اور اس کے خاندان کی سنت اور ذمہ داری ہے، والدین اگر مدد کریں تو جائز ہے، مگر شرعی طور پر لازم نہیں

 

اسلام کا نظامِ نکاح آسان، باوقار اور رحمت والا ہے:
سادہ نکاح
مناسب مہر
سادہ رخصتی
سادہ ولیمہ
بیوی کے لیے عزت و پرائیویسی
والدین اور شوہر کی ذمہ داریوں کا واضح تعین
دکھاوا اور فضول خرچی سے بچاؤ

اگر ہم ان اصولوں پر چلیں تو رشتے خوشگوار، گھر آباد اور زندگی بابرکت بنے گی۔


Thursday, November 13, 2025

An Open Letter to members of Parilment - اراکینِ پارلیمنٹ، Noor Qureshi

 




Respected Members,

محترم اراکینِ پارلیمنٹ،

I advise the Parliament to work on strengthening the Islamic foundation of our State. Pakistan achieved independence with the objective of being an Islamic land, governed by Islamic principles, ethics, and laws.


میں پارلیمنٹ سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ہمارے ملک کی اسلامی بنیاد کو مضبوط بنانے کے لیے اقدامات کریں۔ پاکستان نے آزادی اس مقصد کے لیے حاصل کی کہ یہ ایک اسلامی ریاست ہو، جس کا انتظام اسلامی اصولوں، اخلاقیات اور قوانین کے مطابق ہو۔

Article 2 currently states:
آرٹیکل 2 میں فی الحال لکھا ہے:
"Islam shall be the State religion of Pakistan."
"اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا۔"

I propose that it be revised to have practical meaning:
میں تجویز کرتا ہوں کہ اسے عملی معنی دیے جائیں:
"Islam shall be the State religion of Pakistan, and all organs of the State—legislature, executive, and judiciary—shall act in accordance with the principles, objectives, and injunctions of Islam as laid down in the Holy Qur’an and the Sunnah."
اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا، اور ریاست کے تمام ادارے — مقننہ، انتظامیہ، اور عدلیہ — قرآن و سنت کی ہدایات، اصولوں اور مقاصد کے مطابق کام کریں گے۔

Moreover, Article 227 must be thoroughly implemented. It mandates that all existing laws must be brought into conformity with the injunctions of Islam, and no new law can be enacted that is repugnant to these injunctions.
مزید برآں، آرٹیکل 227 کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے۔ یہ حکم دیتا ہے کہ تمام موجودہ قوانین قرآن و سنت کے مطابق لائے جائیں، اور کوئی نیا قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا۔

Past attempts to enforce Shariah-based governance, through bills such as:
ماضی میں شریعت پر مبنی حکومت نافذ کرنے کی کوششیں کی گئیں، جیسے کہ:

  • 9th Amendment (1985) – Bill to impose Shariah law as the supreme law of the land (passed by Senate but not by National Assembly due to dissolution).
  • 9واں ترمیمی بل (1985)ملک میں شریعت کو اعلیٰ قانون بنانے کا بل (سینیٹ سے منظور ہوا، لیکن قومی اسمبلی کے تحلیل ہونے کی وجہ سے منظور نہ ہو سکا)
  • 15th Amendment (1998) – Bill to impose Shariah law as the supreme law of the land (never passed).
  • 15واں ترمیمی بل (1998)ملک میں شریعت کو اعلیٰ قانون بنانے کا بل (منظور نہ ہو سکا)

These efforts were not completed, and I recommend that once these are addressed, a 29th Amendment be introduced, which requires that:
یہ کوششیں مکمل نہیں ہو سکیں، اور میری تجویز ہے کہ جب یہ معاملات حل ہوں تو 29ویں ترمیم لائی جائے، جس میں یہ شرط ہو کہ:

"All Muslim candidates for National and Provincial Assemblies must have awareness, knowledge, and understanding of the Qur’an and Sunnah, to ensure that the laws and policies of the country are based on Islamic teachings."
"تمام مسلم امیدوار جو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لیے منتخب ہوں، انہیں قرآن و سنت کی معلومات اور فہم حاصل ہو، تاکہ ملک کے قوانین اور پالیسیز اسلامی تعلیمات پر مبنی ہوں۔"

Additionally, I advise the removal of Article 45, which grants the President discretionary powers to grant clemency, pardon, reprieve, or commute sentences, as this power is not subject to judicial review and can undermine the rule of law in light of Islamic principles.
اضافی طور پر، میں مشورہ دیتا ہوں کہ آرٹیکل 45 کو ختم کیا جائے، جو صدر کو معافی، عفو، یا سزا کم کرنے کے اختیارات دیتا ہے، کیونکہ یہ اختیار عدلیہ کے زیرِ نگرانی نہیں ہے اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں قانون کی عملداری کو متاثر کر سکتا ہے۔

With regards,والسلام،
Noor Qureshi - نور قریشی

 

Wednesday, November 12, 2025

What a Political Leader Should Be in the Context of Riyasat-e-Madina - Noor Qureshi

 What a Political Leader Should Be in the Context of Riyasat-e-Madina

Creating a political party and proclaiming the vision of establishing a “Riyasat-e-Madina” is a great responsibility. It is not just about slogans or promises, but about embodying the true values of Islam in leadership. A leader who claims to build such a state must reflect the highest ethical, moral, and spiritual standards. Here is what such a leader should be:

·         Simplicity and Humility

o    Lives a modest life, avoids extravagance, and leads by example.

·         Justice and Fairness

o    Ensures all decisions are fair, transparent, and without favoritism.

o    Upholds the rights of citizens, including minorities and the poor.

·         Accountability and Integrity

o    Holds himself accountable to the people, the organization, and Allah.

o    Avoids misuse of public or organizational resources.

·         Knowledge and Wisdom

o    Makes decisions based on Islamic teachings, consultation (Shura), and practical wisdom.

o    Continuously seeks knowledge to serve the people effectively.

·         Consultation and Advisory (Shura)

o    Encourages a council of knowledgeable advisors and sincerely considers their guidance.

·         Servant Leadership

o    Views leadership as service, not personal gain.

o    Prioritizes public welfare over personal ambition.

·         Develops Future Leaders

o    Trains others to uphold justice, honesty, and ethical governance.

o    Ensures the continuity of righteous leadership.

·         Truthfulness and Transparency

o    Speaks the truth, avoids deceit, and communicates openly with citizens.

·         Care for the Needy and Vulnerable

o    Protects orphans, widows, the poor, and oppressed members of society.

·         Moral Courage and Patience

o    Stands against corruption, oppression, and injustice, even at personal or political cost.

o    Remains patient and steadfast in facing challenges and criticism.

·         Taqwa (God-consciousness)

o    Acts with awareness of Allah, knowing that every decision will be judged by Him.

·         Trustworthiness (Amanah)

o    Leadership is a trust, and the rights and welfare of the people must be preserved.

·         Avoidance of Oppression (Zulm)

o    Never harms, deceives, or oppresses anyone. Ensures protection of the weak and marginalized.

·         Promotion of Public Welfare (Maslahah)

o    All policies and actions aim for the greater good of society.

·         Commitment to the Vision of Riyasat-e-Madina

o    Every action aligns with justice, welfare, and ethical governance, reflecting the true spirit of Riyasat-e-Madina.

In summary, a leader claiming to establish Riyasat-e-Madina is measured not by power, wealth, or popularity, but by integrity, justice, humility, service, and accountability to both people and Allah. True Islamic leadership is a trust, and those entrusted must lead with devotion, fairness, and moral courage. Noor Qureshi

 

ریاستِ مدینہ کے تناظر میں ایک سیاسی رہنما کی خصوصیات

کسی سیاسی جماعت کا قیام اور “ریاستِ مدینہ” کے قیام کے مقصد کا اعلان ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ یہ صرف نعروں یا وعدوں کا معاملہ نہیں، بلکہ قیادت میں اسلام کے حقیقی اقدار کی عملی تصویر پیش کرنے کا تقاضا ہے۔ جو رہنما ریاستِ مدینہ قائم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، اسے اعلیٰ اخلاقی، فکری اور روحانی معیار اپنانا ضروری ہے۔

  1. سادگی اور عاجزی
    • سادہ اور عاجزانہ زندگی گزارے، فضول خرچی سے اجتناب کرے اور عمل سے مثال قائم کرے۔
  2. انصاف اور برابری
    • ہر فیصلہ منصفانہ، شفاف اور غیر جانبدار ہو۔
    • شہریوں کے حقوق، بشمول اقلیتیں اور غریب، کا تحفظ کرے۔
  3. جوابدہی اور دیانتداری
    • عوام، جماعت اور اللہ کے سامنے جوابدہ ہو۔
    • عوامی یا تنظیمی وسائل کا ذاتی فائدے کے لیے استعمال نہ کرے۔
  4. علم اور حکمت
    • فیصلے اسلامی تعلیمات، مشاورت (شورا) اور عملی حکمت پر مبنی ہوں۔
    • عوام کی خدمت کے لیے مسلسل علم حاصل کرے۔
  5. مشاورت اور مشیران (شورا)
    • اہل علم مشیروں کی رائے قبول کرے اور ان کی رہنمائی پر عمل کرے۔
  6. خدمت گزار قیادت
    • قیادت ذاتی فائدے کا ذریعہ نہیں بلکہ خدمت کا فریضہ ہو۔
    • عوام کی فلاح ہمیشہ اولین ترجیح ہو۔
  7. آئندہ رہنماؤں کی تربیت
    • دوسروں کو انصاف، دیانتداری اور اخلاقی قیادت کی تربیت دے۔
    • آئندہ کے لیے صحیح قیادت کے اصول قائم رکھے۔
  8. سچائی اور شفافیت
    • ہر وقت سچ بولے، فریب سے اجتناب کرے اور عوام کے ساتھ کھلی بات چیت کرے۔
  9. ضرورت مندوں اور کمزوروں کی دیکھ بھال
    • یتیموں، بیوہ خواتین، غریب اور مظلوموں کا تحفظ کرے۔
  10. اخلاقی حوصلہ اور صبر
    • کرپشن، ظلم اور ناانصافی کے خلاف کھڑے رہے، چاہے سیاسی یا ذاتی قیمت چکانی پڑے۔
    • چیلنجز اور تنقید کا صبر و تحمل سے مقابلہ کرے۔
  11. تقویٰ (اللہ کا خوف)
    • ہر عمل میں اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھے، کیونکہ ہر فیصلہ اللہ کے سامنے جوابدہ ہوگا۔
  12. امانتداری (اعتماد)
    • قیادت ایک امانت ہے اور عوام کے حقوق و فلاح کا تحفظ ضروری ہے۔
  13. ظلم سے اجتناب
    • کسی پر ظلم، دھوکہ یا نقصان نہ کرے۔ کمزوروں اور مظلوموں کا تحفظ کرے۔
  14. عوامی فلاح و بہبود (مصلحت)
    • ہر پالیسی اور اقدام معاشرتی بھلائی اور عوامی فلاح کے لیے ہو۔
  15. ریاستِ مدینہ کے وژن سے وابستگی
    • ہر عمل انصاف، فلاح اور اخلاقی قیادت کے مطابق ہو، جو ریاستِ مدینہ کی اصل روح کی عکاسی کرے۔

آخر میں، ریاستِ مدینہ کے قیام کا دعویٰ کرنے والا رہنما طاقت، دولت یا شہرت سے نہیں بلکہ دیانتداری، انصاف، عاجزی، خدمت اور اللہ و عوام کے سامنے جوابدہی سے پرکھا جاتا ہے۔ اسلام میں قیادت ایک امانت ہے، اور جو اسے سنبھالے وہ خلوص، عدل اور اخلاقی حوصلے کے ساتھ قیادت کرے۔